مادرعلمی کے شب وروز


بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین العالم الغیب والشھادۃ والصلوٰۃ والسلام علیٰ افضل البریۃ سید الکونین محمد المصطفیٰ ؐ العالم بما کان ومایکون کما قال اللہ تعالیٰ فی شأنہ وعلمک مالم تکن تعلم (سورۂ نساء ۲۳۹) وعلیٰ اھلبیتہ الطیبین الطاہرین العلماء الربانین والھادین والمھدیین۔ اما بعد فقد قال الحکیم فی کتابہ الکریم : انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء (سورہ فاطر ۲۸)
جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ ٹرسٹ رجسٹرڈ کراچی کی ۲۵ سالہ سلور جوبلی اور انجمن فلاح وبہودیٔ نوربخشی بلتستانیاں رجسٹرڈ کراچی کے ۵۰ سالہ گولڈن جوبلی کی مناسبت سے انجمن ھٰذا کے مخلص انتظامیہ نے بندہ حقیر کو ان دونوں مواقع کی مناسبت سے ایک مقالہ بعنوان
جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ ٹرسٹ رجسٹرڈ کراچی انجمن فلاح وبہبودیٔ نوربخشی بلتستانیاں رجسٹرڈ کراچی کے پختہ عزم اور پیر سید عون علی شاہؒکی دور اندیشی کی برکت سے معرض وجود میں آیا اور بحمد للہ اپنے اعلیٰ مقاصد واہداف کے حصول کی جانب رواں دواں ہے ۔ جس طرح عالم اسلام کے دوسرے مکاتب کے اپنے اپنے مدارس ہیں جن میں اپنے مذہب کے عقائد ونظریات پڑھائے جاتے ہیں اسی طرح مستقل مکتب فکر ہونے کے لحاظ سے نوربخشیوں کا بھی کا ایک منظم اور مضبوط علمی ادارہ کا وجود ناگزیر تھا جس کے بغیر مسلک ومذہب کی ترویج وبقاء ناممکن تھا اور اسی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے انجمن ہٰذا نے عزم مصمم کے ساتھ اس وقت کے رہبر شریعت پیر طریقت حضرت سید عون علی شاہؒکی اجازت اور مشورے سے اس مادر علمی کی بنیاد رکھی اور اس روز سے تا ہنوز اپنی منزل کی طرف کوشاں ہے اور چونکہ ایک دینی درسگاہ کے اندر تربیت پانے والے طلباء کیلئے علمی اور عملی اور روحانی لحاظ سے کیا کچھ پڑھنا اور پڑھانا چاہئے اور ان کے عملی وروحانی زندگی اس تربیت گاہ میں کس طرح ہونی چاہئے تاکہ اس مرکز سے فارغ التحصیل علماء کرام قوم وملت ومذہب کی علمی و روحانی ضروریات کو پورا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ چونکہ ایک عالم دین کو جس کی ذمہ داری صرف لوگوں کو دینی معلومات پہنچانا نہیں بلکہ عوام الناس کی روحانی تربیت بھی مقصود ہے اور معاشرے میں اس ادارہ سے فارغ التحصیل عالم دین کو ایک مسیحا کا کردار ادا کرنا ہے اور ایک عالم ربانی کی حیثیت سے اسلامی معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے ایک عالم دین کو معاشرے کی علمی وروحانی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے سب سے پہلے اپنے آپ کوایک عالم باعمل وباکردار اور علم ومعرفت سے منور ہستی ہونا ہوگا۔ کیونکہ عالم دین کے جو اوصاف قرآن وحدیث واقوال ائمہ ہدیٰ علیہم السلام سے ملتے ہیں وہ علم کامل ہونے کے ساتھ ساتھ عمل کا بھی متقاضی ہے اور ساتھ ہی ہمارا مسلک ایک صوفی مسلک ہونے کی وجہ سے ہمارے علماء میں حقیقی صوفی کے کردار کا بھی عکاسی کرنے والا ہونا چاہیے۔ لہٰذا ان تمام مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے اس مادر علمی میں طلباء کرام کی تعلیم وتربیت کے سلسلے میں انجام پانے والے امور بھی دو طرح کے ہیں کچھ فعالیت ایسی ہیں جو طلباء کی علمی صلاحیت کو تقویت پہنچاتی ہے او ر کچھ ایسے امور ہیں جوکہ طلباء کے عملی وروحانی پہلو کو تقویت اور کامل کرتے ہیں۔ اس طرح اس مادر علمی میں اس سات سالہ کورس میں انجام پانے والے امور دوحصوں میں تقسیم ہیں۔
۱۔ علمی ۲، عملی
ہدف اول :علمی :
ا س مادر علمی میں تربیت پانے والے طلباء کرام کی علمی تشنگی پورا کرنے کیلئے سات سالہ اس کورس کے مکمل کرنے کے بعد فارغ التحصیل علماء کرام کسی بھی دینی مدرسہ میں ضروری وبنیادی طور پر پڑھائے جانے والے تمام علوم پر دسترس ہوجاتی ہےاور کسی حد تک اپنی اور معاشرے کی علمی ضرورت پورا کرنے پر قدرت حاصل ہوجاتے ہیں ورنہ علوم خصوصاً دینی علوم کیلئے فارغ التحصیل بے معنی ہے وہ علوم جوکہ ان سات سالوں کے دوران پڑھائے جاتے ہیں درج ذیل ہیں:

نصاب مدرسہ
نصاب پر تبصرہ
اس تبصرہ میں مختصرا یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ یہ نصاب کن علوم پر مشتمل ہے اور یہ کتابیں یہ مادر علمی میں کس علمی مشکل کو حل کرنے کیلئے پڑھائے جاتے ہیں۔
۱۔ تفسیر قرآن پاک :
اس مادر علمی میں تفسیر قرآن پاک درس روزانہ ہوا کرتا ہے اور اسمبلی کے بعد پہلی کلاس اس مقدس کتاب کی ہے اور اس کلاس میں کلاس اول کے علاوہ باقی تمام کلاسز کو شرکت کرنا ضروری ہے تاکہ اس مقدس کتاب سے آشنائی اور معرفت کے ساتھ ساتھ طلباء کی اعتقادی واخلاقی تربیت بھی ہوسکے کیونکہ اس مقدس کتاب سے بڑھ کر نہ کوئی موعظہ زیادہ کار آمد ہوسکتا ہے اور نہ کوئی کتاب مؤثر ہو سکتی ہے ۔ کسی جامعہ ومدرسہ کا اصل مقصد وھدف یقیناً قرآن مجید کی معرفت اور اس میں موجود علوم ومعارف حقہ کا کما حقہ ادراک ہوتا ہے، ہر علم ومعرفت کی صحیح وغلط کی کسوٹی یہی کتاب ہے اس لئے اس مادر علمی میں طلباء کو ہر روز اس مقدس کتاب کی ایک کلاس لینا ضروری ہے کیونکہ جس کسی نے اس کتاب مقدس کو سمجھ لیا اور معرفت حاصل کی تو اس نے سب کچھ جان لیا اور جو شخص اس مقدس کتاب سے جاہل رہا تو اس سے محروم تر کوئی نہیں ہے۔ باقی کلاس اول والوں کے لئے تفسیر قرآن کی بجائے تجوید قرآن ہے کیونکہ قرآن پاک کے بارے میں لازمی طور پر جاننے والا علم ، علم قرأت اور تجوید ہے۔
۲۔ کتاب دعوات شریف:
یہ کتاب طلباء کو ابتدائی سالوں میں ہی پڑھائی جاتی ہے اور اس میں موجود تمام دعاؤں اور عبادات کو حفظ کرتے ہیں۔ چونکہ یہ بابرکت کتاب حضرت امیر کبیر سید علی ؒ کی ہے۔ اور اس میں موجود مستند دعاؤں کو سیکھنا ایک عالم دین اور ایک مرد مؤمن کیلئے نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ نبی کریم ؐ کا مشہور حدیث مبارکہ ہے۔
الدعاء مخ العبادۃ۔
دعا عبادت کا مغز ہے ۔ مغز کے بغیر قشر کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ نیز نوربخشی دنیا میں اس پُر برکت کتاب میں موجود دعاؤں کا جاننا اور حفظ جزء لانیفک کی طرح ہے کہ ایک عالم دین ہو اور یہ دعائیں نہ آتی ہوں تو اس کو عالم ہی نہیں مانا جاتا اور یہ ہمارے اس پاک مکتب کی ایک خاص خصوصیت ہے۔
۳۔ فقہ الاحوط
کتاب فقہ احوط حضرت شاہ سید محمد نوربخشؒ کی تصنیف ہے یہ کتاب مجموعہ شریعت محمدیہ ؐ ہے۔اور چونکہ مسلک صوفیہ امامیہ نوربخشیہ فقہی احکام اسی کتاب مبارک سے لیتے ہیں ۔ اور اس کے مطابق شریعت پر عمل کرتے ہیں۔ لہٰذا اس کتاب کا جاننا بھی نہایت ضروری ہے اور عالم دین اس کتاب کے جانے بغیر عالم کہنے کا لائق ہی نہیںہے اور عوام الناس کو بھی زندگی بھر اسی کتاب کی تبلیغ کرنا ہے لہٰذا اس کتاب کا اس مادر علمی میں پڑھایا جانا انتہائی لازم امر ہے۔
۴۔ کتاب الاعتقادیہ
یہ نورانی کتاب حضرت شاہ سید محمد نوربخشؒکی تصنیف ہے اس بابرکت کتاب میں اسلام کے تمام بنیادی عقائد ایمان بااللہ ، ایما ن بالرسالہ، ایمان بالقیامۃ، ایمان بالکتب السماویہ، ملائکہ پر ایمان کے علاوہ امامت پر ایمان ، اولیاء الہٰی پر ایمان وغیرہ کے بارے میں انتہائی جامع انداز میں بحث کی گئی ہے اور حضرت شاہ سید محمد نوربخشؒنے اس کتاب میں عقائد اسلام کا خلاصہ موجود ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آپؒنے سمندر کو کوزہ میں بند کیا ہے۔ نوربخشی مسلک سے تعلق کی بناء پر اس کتاب کی تعلیم وتدریس کے بغیر یہ مادر علمی ناقص رہے گی اور اس کتاب کو جانے بغیر اور اس کے اندر موجود اعتقادی معارف کو مانے بغیر کسی فرد کا نوربخشی کہلانا دعویٰ بلالیل ہوگا۔ اس لئے مادر علمی میں اس بابرکت کتاب کو خصوصی اہمیت کے ساتھ پڑھاجاتا ہے۔
۵۔ احادیث نبوی ؐ۔
۱۔ چہل حدیث فی فضائل امیر المومنین ؑ
۲۔ سبعین فی فضائل امیر المومنین ؑ
۳۔ چہل حدیث جواہر الایمان
۴۔مودۃ القربیٰ فی فضائل آل عباء ؑ
یہ کتابیں حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانیؒکی تالیفات ہیں ان میں سے کتاب چہل حدیث اور کتاب سبعین میں خصوصی طور پر حضرت علیؑکے بارے میں نبی رحمت محمد مصطفی ﷺکی احادیث مبارکہ منقول ہیں۔
کتاب مودۃ القربیٰ مکمل طور پر اہل بیت اطہار علیہم السلام کے فضائل پر مشتمل ہے اور ان میں سے مودت تمسک اور اطاعت کے لازم ہونے اور دیگر اہم مطالب جو کہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کے متعلق احادیث میں نقل فرمائے ہیں اور اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں اگر انسان خلوص دل کے ساتھ اس کتاب کو پڑھے تو اس کتاب کی برکت سے انسان کا اہل بیت ؑ کے حوالے سے ایمان وعقیدہ یقیناً مستحکم ہوجاتا ہے۔ نیز حب اہل بیت ؑتمام مسلمانوں پر لازم ہے جس کے حصول کیلئے یہ کتاب ہمارے مادر علمی میں پڑھائی جاتی ہے۔
۶۔ کتاب نہج البلاغہ:
یہ بابرکت کتاب محتاج تعارف نہیں دنیائے اسلام میں بلکہ پوری دنیا میں مسلم وغیر مسلم اسکالرز سب ہی جانتے ہیں کہ یہ کتاب حضر ت علی ؑ کے خطبات ، خطوط اور کلمات قصار پر مشتمل ایک جامع کتاب ہے ا س کتاب کے بارے میں محققین اسلام کا نظریہ ہے کہ یہ کتاب فصاحت وبلاغت میں اپنا ثانی نہیں رکھتی اور ہمارے سلسلۂ ذھب کے مرشد کامل حضرت علاؤ الدولہ سمنانیؒنے کتاب ’’مناظر الحاضر‘‘میں نہج البلاغہ کے خطبہ شقشقیہ کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ
رد مردم چرا نہج البلاغہ را نمی خوانند
یعنی لوگ نہج البلاغہ کیوں نہیں پڑھتے ہیں ؟ اس لئے مادر علمی میں اس بابرکت کتا ب کے بھی کچھ اقتباسات پڑھائے جاتے ہیں۔
۷۔تصوف وعرفان
تصوف وعرفان اور اخلاقیات پر مشتمل درج ذیل کتابیں بھی اس مادر علمی کے نصاب میں شامل ہیں اور پڑھائی جاتی ہیں ۔
۱۔ ذخیرۃ الملوک
۲۔ رسالہ فتوت
۳۔ رسالہ جواہر الایمان
۴۔ سائر الحائر ، تالیف نجم الدین کبریٰ
۵۔ اصول عشرہ
۶۔ فواتح الجلال والجمال
۷۔ شرح گلشن راز ،حضرت محمد اسیری لاہیجی ؒ
شرح گلشن راز علم تصوف کی انتہائی جامع کتاب ہے یوں کہے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ کتاب معارف تصوف کی انسائیکلو پیڈیا ہے۔
۸۔ کشف الحقیقت (سے منتخب اشعار)
تصوف نظری عمل کے معارف نیز تصوف عملی کے د وران سالک راہ خدا کو پیش آنے والے تمام احوال سے اس راہ میں داخل ہونے سے پہلے آشنائی کی خاطر تاکہ سالک راہ چلتے ہوئے درپیش مختلف احوال واقعات میں حیران وپریشان نہ ہونے کیلئے معارف تصوف پر مشتمل یہ کتابیں اس مادر علمی میں پڑھی جاتی ہیں۔ تاکہ اس مادر علمی سے فارغ ہونے والے طلباء اپنے مسلک ومذھب کے امتیازات سے آگاہ رہیں اور ساتھ ہی عملی سلوک میں آسانی ہو۔
۸۔ تاریخ اسلام
تاریخ میں کتاب الربض (تالیف اخوند نصب علی بلغاری بحکم پیر طریقت سید محمد اکبر ؒ)مدرسہ کے نصاب میں شامل ہے۔
تاریخ اہل بیت علیہم السلام خصوصاً امام حسین ؑاور آپ ؑ کے جانثاروں کی تاریخ ساز احوال سے آگاہی کیلئے کتاب الربض کا متن پڑھایا جاتا ہے۔ تاکہ شہداء کربلاء کے بارے میں خصوصاً اور دیگر ائمہ اہلبیت علیہم السلام کے بارے میں عموماً معارف کا ایک خلاصہ ہمارے طلباء کے ذہن نشین کریں۔ کیونکہ مکتب نوربخشیہ میں محمد ؐ وآل محمد علیہم السلام سے وابستگی ،ان کی معرفت اور ان کی محبت ضروری ہے اس لئے اس مادر علمی میں یہ تاریخ کا خلاصہ پڑھایا جاتا ہے۔

مادر علمی میں پڑھے جانے والے دیگر علمی فنی وادبی نصاب کا خلاصہ اور ان کا نصاب میں شامل کرنے کی غرض وغایت :
۱۔ علم نحو
عربی ادب میں علم نحو کی اہمیت سے ہر عالم دین ودانشور آگاہ ہے۔ عربی مقولہ ہے
النحو فی العلم کالملح فی الطعام ۔
علم نحوعلم میں خصوصا عربی ادب میں کھانے میں نمک کی حیثیت کی مانند ہے۔ اس علم کے بغیرقرآن وحدیث کا صحیح فہم ناممکن ہے اس مقصد کے حصول کیلئے اس مادر علمی میں درج ذیل کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔
۱:۔ طریقہ جدیدہ
۲:۔ نحومیر
۳:۔ عوامل جرجانی
۴:۔ ہدایۃ النحو
۵:۔ کتاب الصمدیہ
۶:۔ سیوطی (بہجۃ المرضیہ)
۲۔ علم الصرف :
عربی ادب میں علم صرف سب سے بنیادی علم ہے جس کے ذریعے کلمات کا صحیح تلفظ اور ایک لفظ سے مختلف معانی حاصل کرنے اورنیز کلمات کی صحیح پہچان ہوتی ہے۔ اور اس علم کا پڑھنا اہم اور کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس علم کی حتی عربی زبان کے کتب لغات سے بھی کماحقہ استفادہ نہیں کرسکتا ہے۔ اس لئے اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے اس مادرد علمی میں علم صرف کی درج ذیل کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔
کتاب امثلہ وشرح امثلہ ،کتاب میزان الصرف، کتاب منشعب ،کتاب صرف میر ، کتاب پنج گنج، کتاب علم الصیغہ ، کتاب ابواب صرف اس علم میں یہ ساری کتابیں اس لئے پڑھائی جاتی ہیں کیونکہ اس علم کے بغیر تو عالم دین ان پڑھ شمار ہوتا ہے۔
۳۔ علم معانی وبیان:
اس علم کے ذریعے عربی زبان میں موجود فصاحت وبلاغت کی خوبیاں جانی جاتی ہیں۔ اور اس علم پر عبور حاصل کرکے ہی قرآن پاک کے رسول اللہ ؐ کا معجزہ خالدہ ہونا معلوم ہوتا ہے۔ اور قرآن پاک کے اندر موجود فصاحت وبلاغت کے بلند ومراتب ورموزا ت کی معرفت ہوتی ہے۔ اس لئے اس علم کا پڑھنا ضروری ہے۔ اور اس ماد ر علمی میں اس مقصد کے حصول کیلئے دوکتابیں:
۱۔ جواہر البلاغہ
۲۔ کتاب مختصر المعانی
۴ ۔ علم اصول فقہ:
یہ علم قرآ ن وسنت سے احکام شرعی استنباط کرنے اور فقہی مسائل کا صحیح اور مدلل ادراک کیلئے نہایت ضروری ہے اس علم کے بغیر دین کا مجتہد یا مفتی کا دعویٰ بیہودہ اور بے معنی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے اور طلاب کرام کی اس علم سے آشنائی کیلئے اس مادرہ علمی میں درج ذیل تین کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ۔ ہر چند فقہ ، واعتقاد میں ہمارے بزرگان کی کتابیں فقہ الاحوط اور اصولاعتقادیہ جیسی مایہ ناز کتابیں ہیں اور ہمارے نصاب میں شامل ہیں اس علم میں بھی ہونا نہایت ضروری تھا لیکن ہمارے بزرگان کی ا س علم پر مشتمل کوئی جامع کتاب نہ ہونے کی بنا پر ہم عالم اسلام کے دیگر مکاتب فکر کی کتابیں پڑھانے پر مجبور ہیں اس نصاب میں مندرجہ ذیل تین کتابیں اس مادر علمی میں تدریس ہوتی ہیں ۔
۱:۔ مبادیٔ اصول فقہ
۲:۔ اصول الشاشی
۳:۔ اصول المظفر
یہ تین کتابیں علم اصول فقہ سے متعلق ہیں ان میںسے اصول الشاشی اہلسنت والجماعت کے مدارس میں پڑھائی جاتی ہے باقی دو کتابیں شیعہ مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں۔ اس مادر علمی میں دونوں مکتب فکر کے نظریات سے آشنائی کیلئے یہ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔
۵۔ علم منطق
ایک عالم دین کسی صورت میں بھی اس علم سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ علم انسان کی فکری اصلاح اور خطا فکری سے انسان کو بچانے کیساتھ ساتھ اشیاء کی حقیقت کی شناخت اور استدال علمی میں اس علم کا بڑا دخل ہے نیز علم فلسفہ اور کلام اور حتی اصول فقہ کے نظریات سمجھنے میں بھی اس علم کا بنیادی وکلیدی کردار ہے اور چونکہ ایک عالم دین کو اپنی سابقہ علمی مشکلات کے حل اور ان کے بہتر فہم وادراک کیلئے اس علم کا سیکھنا نہایت ضروری ہے لہٰذا اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے اس مادر علمی میں درج ذیل کتابیں پڑھائی جاتی ہیں:
۱۔خلاصۃ المنطق
۲۔ المرقات
۳۔ المنطق مظفر
۶۔ علم فلسفہ
یہ علم بھی ایک بافضیلت عالم دین کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے اور اس علم کے ذریعے بھی انسان کائنات میں موجود اشیاء کی حقیقت جانتا ہے مدد لیتے ہیں خصوصاًاس علم اور علم عرفان نظری وتصوف نظری کے بہت سے ابحاث مشترک ہیں اور اس علم کے ذریعے دین کی طرف ہدایت اور رہنمائی میں مدد مل جاتی ہے۔ اور ایسی ہی بہت سے دقیق علمی واعتقادی وعقلی بحث علم فلسفہ میں کیجاتی ہے لہذا اس علم کے بارے میں ہمارے اس مادرعلمی سے فراغت پانے والے علماء کیلئے جدید نصاب میں ایک’’ کتاب بدایۃ الحکمۃ ‘‘تالیف (علامہ سید محمد حسین طبا طبائی مرحوم )شامل کی گئی ہے ۔
یہ ایک طائرانہ نظر اس مادر علمی میں پڑھائے جانے والے نصاب کے بارے میں آپ کی خدمت میں پیش ہوا۔

ہدف دوم
اس مادر علمی میںزیر تعلیم وتربیت طلباء کرام کی علمی خلا کو پرُ کرنے کیلئے مذکورہ تعلیمی نصاب ۷سال کے عرصہ میں مکمل کیا جاتا ہے اور روزانہ تقریباً ہر کلاس کو چار دروس لینا پڑتے ہیں۔ لیکن چونکہ اس مادر علمی کا مقصد اس میں نشوونما پانے والے طلباء کی صرف علمی تربیت نہیںبلکہ اس سے فارغ التحصیل ہونے والے علماء ایک عالم باعمل اور باکردار اور ظاہر وباطن ایک اور معاشرے کو صحیح معنوں میں دین کی جانب رہنمائی کرنے والے علماء کی پرورش مقصود ہے کیونکہ قرآن پاک اور احادیث نبوی ؐ وفرامین ائمہ اہلبیت ؑ کی تعلیمات کی روشنی میں ایک عالم دین کو قرآن وحدیث اور دیگر علوم اسلامیہ پر مکمل دسترس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باکردار، باتقویٰ اور ایک سچے مؤمن عالم دین ہونے کی ضرورت ہے۔ دوسرے الفاظ میں عالم ربانی کی ضرورت ہے تاکہ وہ معاشرے میں لوگوں کی صحیح تربیت کرسکیں۔ کیونکہ عمل کے بغیر صرف علم کو معصومین ؊ نے اس درخت سے تشبیہ دی ہے کہ جس پر کوئی پھل نہیں ہے اورقرآن پاک میں تو عالم کی پہچان ہی عمل خشیت الٰہی قرار دی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے۔
انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء (سورہ فاطر ۲۸)
بے شک علماء ہی حقیقی معنوں میں اللہ کی خشیت رکھتے ہیں۔
خشیت کا یہ مقام علم اور عمل کی ترکیب سے حاصل ہوتا ہے۔لہٰذا اس مادرعلمی میں زیر تربیت طلباء کرام کی عملی اور روحانی تربیت کے اعلیٰ مقصد کو حاصل کرنے کیلئے درج ذیل روحانی امور انجام دئیے جارہے ہیں اور ان امور کا اتنا ہی خیال رکھا جاتا ہے جتنا اس ادارے میں تعلیمی امور پر توجہ دی جاتی ہے تاکہ فارغ التحصیل علماء ایک عالم باعمل اور عالم ربانی کی صورت میں نمودار ہوسکیں اور اسلامی معاشرے میں دین حق کی صحیح ترجمانی وتبلیغ کرسکیں۔
۱۔ نماز پنجگانہ باجماعت ادا کرنے کی تاکید:
چونکہ انسان کی روح کی پرورش میں نماز کا بڑا کردار ہے اور نماز فرمان رسالت مآ ب ؐ کی روشنی میں مومن کی معراج ہے لہٰذا اہمیت کی بنیاد پر باقی تمام عبادات پر اس فریضہ کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے اور نماز ہی بندہ اور اللہ کے درمیان رابطہ کا اہم ستون ہے اس لئے اس فریضہ کی ادائیگی پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔
اس کے بعد مادر علمی میں روزانہ انجام پانے والی عملی وروحانی عبادات درج ذیل ہے:
۲۔ نماز تہجد:
ہرطالب علم کو چاہے کہ نماز تہجد کیلئے اٹھے کیونکہ ایک عالم دین کی بیان میں تاثیر اور کاموں میں استقامت میں اس عبادت کا خاص دخل ہے۔ چنانچہ سورۂ مزمل میں ارشاد ربانی ہے۔
ان ناشئۃ اللیل ھی اشد وطاً واقوم قیلاً۔
ترجمہ: بیشک رات کا جاگنا پاؤں کو ثابت قدم رکھنے میں اور بات کو مؤثر بنا نے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
۳۔ دعاء
ہمار ے پاک مسلک کے اندر دعاؤں کی بڑی اہمیت ہے اور دعا کو اللہ کے نبی ؐ نے عبادت کا مغز قرار دیا ہے۔ اور ہماری تمام دعاء اللہ رب العزت کی حمد وثناء اور اپنی دینی ودنیوی حاجات پر مشتمل ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت کی معرفت اور پہچان کا بھی ایک اہم بڑا ذخیرہ ہے کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی صحیح پہچان اللہ کے نبی ؐ اور آپکے جانشین ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہی کو ہوں گے۔ اور ہمارے کتابوں میں مذکورہ دعائیں سب کی سب خود رسول اللہ ؐیا ائمہ اہلبیت علیہم السلام سے مروی ہیں۔ اس لئے قرآن پاک کے بعد یہ دعائیں بھی اللہ رب العزت کی معرفت کا ایک عظیم خزانہ علمی ہے۔
میری اس ادعا کا ثبوت اسشخص کو ہوگا جسے ان دعاؤں سے آشنائی ہے اور ہمیشہ ان دعاؤں کا ورد کرتے رہتے ہیں اور ان میں موجود معارف کو درک کرسکتے ہیں اور انہی مقاصد کے حصول کیلئے اس مادر علمی میں روزانہ درج ذیل دعائیں ۔ انتہائی خلوص کے ساتھ انہی طلباء کے توسط سے پڑھی جاتی ہیں۔ خصوصاً اوراد فتحیہ، اوراد عصریہ، کے پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ شہد کی مکھیاں جس طرح شہد کے گرد گنگناتی ہیں ہمارے یہ کم سن طلباء ایسے ہی یک زبان ہوکر پورے خلوص او ر عشق کے ساتھ ان دعاؤں کا ورد کرتے ہیں اور ان دعاؤں کی محفل میں شرکت کرنے والوں کو بہت روحانی سکون محسوس ہوتا ہے۔ وہ دعائیں درج ذیل ہیں:
۱۔ دعائے صبحیہ :
یہ دعاء صبح کی فرض نماز سے پہلے پڑھی جانیوالی یہ دعا باری باری یہ طلبا پڑھتے ہیں ۔ ساتھ ان کے معانی اور مطالب بھی اچھی طرح سے سمجھائے جاتے ہیں تاکہ دعا کے دوران حضور قلب بھی ہو اور دعا میں موجود تعلیمات اور پیغامات سے بھی بہرہ مند رہیں۔
۲۔ اوراد فتحیہ :
یہ دعا تمام نوربخشی مساجد کی طرح یہاں بھی صبح کی نماز سے فراغت کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ اس میں تمام طلباء کی شرکت لازمی ہے ۔ اور روزانہ کی بنیاد پر طلبا کی موجودگی کو یقینی بنانے کیلئے حاضری لی جاتی ہے ۔ مہینے کے آخری میں ان حاضریوں کو باقاعدگی سے معائنہ کیا جاتا ہے اور تادیبی کارروائیوں اور جرمانوں کے ذریعے کوشش کی جاتی ہے طلبا اس اوراد کی محفل میں موجود رہیں۔
۳۔ اوراد خمسہ:
پنجگانہ فرض نماز کے بعد یہ مبارک دعاء دیگر مساجد کی طرح یہاں بھی پڑھی جاتی ہے اس دعا کی خاص خصوصیت یہ ہے کہ استغفار کے کلمات سے شروع ہوتی ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام، ملائکہ اور اہل طاعت سے اظہار عقیدت اور دعا کی قبولیت کیلئے چہاردہ معصومین؊ اور پنجتن پاک ؊ کے توسل کیساتھ اس کا اختتام ہوتا ہے۔ نوربخشی مسلک میں وسیلہ کےثبوت کےساتھ ساتھ اس دعا میں انتہائی مختصر الفاظ میں چہاردہ معصومین علیہم السلام کی جامع فضیلت بھی بیان کی گئی ہے ۔
۴۔ دعائے عصریہ:
یہ مبارک دعا بھی مادر علمی کے طلبا بعد نماز عصر اجتماعی شکل میں روزانہ کسی ناغہ کے بغیر پڑھتے ہیں اور طلباء کرام خود باری باری سے پڑھتے ہیں اس دعا کا زیادہ تر حصہ قرآنی آیات پر مشتمل ہے۔
۵۔ محفل ذکر:
ہر شب جمعہ کو نما ز عشاء کے بعد ذکر الٰہی کی مخصوص انداز میں محفل برپا ہوتی ہے اور صاحبان ذوق ان اذکار سے روحانی طور پر استفادہ کرتے ہیں اور ذکر کے اختتام پر ذکر اہلبیت علیہم السلام کے طور پر ایک مرثیہ بھی پڑھا جاتاہے تاکہ خدا کے ساتھ ساتھ ذکر رسول اللہ ؐ اور اہل بیت علیہم السلام کا بھی ذکر ہو۔
۶۔ مادر علمی کی روزانہ ابتداء
دنیا کے ہر دینی ودنیوی مدارس واسکول میں ایک اسمبلی ہوا کرتی ہے اسی طرح اس مادر علمی میں بھی ایک اسمبلی ہوتی ہے ۔ سب سے پہلے ایک طالب علم کھڑا ہوکر دعائے صبحیہ کے تین پیرا گراف حزین انداز میں تلاوت کرکے اس اسمبلی کی ابتدا کرتا ہے اور ہر پیرا گرفت کے اختتام پر سب مل کر آمین کہتے ہیں وہ پیرا گراف یہ ہیں۔
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ عَلَیْہِمْ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِکَ تَھْدِیْ بِہَا قَلْبِیْ وَتَجْمَعُ بِہَا شَمْلِیْ وَتَلُمُّ بِھَا شَعْثِیْ وَتَرُدُّ بِھَا اُلْفَتِیْ وَتُصْلِحُ بِھَا دِیْنِیْ وَتَحْفَظُ بِھَا غَائِبِیْ وَتَرْفَعُ بِھَا شَاھِدِیْ وَتُزَکِّیْ بِھَا عَمَلِیْ وَتُبَیِّضُ بِھَا وَجْہِیْ وَتُلْہِمُنِیْ بِھَا رُشْدِیْ وَتَعْصِمُنِیْ بِھَا مِنْ کُلِّ سُوْئٍ
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا ھَادِیْنَ وَمَھْدِیِّیْنَ غَیْرَ ضَآلِّیْنَ وَلَا مُضِلِّیْنَ حَرْباً لِاَّعْدَائِکَ وَسِلْماً لِاَّوْلِیَائِکَ ۔ نُحِبُّ بِحُبِّکَ النَّاسَ وَنُعَادِیْ بِعَدَاوَتِکَ مَنْ خَالَفَکَ مِنْ خَلْقِکَ O
اَللّٰھُمَّ ھٰذَا الدُّعَائُ مِنِّیْ وَمِنْکَ الْاِجَابَۃُ وَھٰذَا الْجُھْدُ وَعَلَیْکَ التُّکْلَانُ وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ۔
یہ دعا اس لئے بھی پڑھی جاتی ہے کہ تمام سعادتیں اور بندہ مؤمن کی دنیا وآخرت دونوں میں کامیابی صرف اللہ کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس رحمت کے سوال کے بعد چونکہ ایک عالم دین خود ہدایت یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ہدایت دینے والا ہونا ضروری ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے اس ہدایت کا طلبگار ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری محبت اور دشمنی کی بنیاد مادی مقاصد اور ذاتی مفادات نہ ہوں بلکہ اس کا معیار تیری رضا اور محبت ہو۔
اس دعا کے بعد طلباء کو مراقیہ اور اللہ کی حضور کلاس شروع کرنے سے پہلے متوجہ کرنے کیلئے درج ذیل تسبیحات جوکہ حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒنے د عوات شریف میں نقل کی ہے پڑھتے ہیں۔ تسبیحات ذیل ہیں۔روزانہ مختلف وظائف ہیں ۔

ہفتہ
یَا قَاضِیَ الْحَاجَاتِ
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ
(۱۰۰)
اتوار
یَا مُسَبِّبَ الْاَسْبَابِ
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ
(۱۰۰)
پیر
یَا مُفَتِّحَ الْاَبْوَابِ
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْحَیُّ الْحَلِیْمُ
(۱۰۰)
منگل
یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
(۱۰۰)
بدھ
یَا بَدِیْعَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ
(۱۰۰)
جمعرات
یَا ذَالْجَلالِ وَالْاِکْرَامِ
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ
(۱۰۰)
جمعہ
لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ
(۱۰۰)
ان تسبیحات سے فراغت کے بعد اس مادرعلمی کے تمام مرحوم اور موجود خدمت گزاروں کے حق میں ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی اور دعائے خیر کے ساتھ یہ نورانی اسمبلی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔ اس کے بعد باقاعدہ روزانہ کی کلاسیں شروع ہوتی ہیں اور سب سے پہلی کلاس تفسیر قرآن کی ہوتی ہے اس کلاس میں کلاس اول کے علاوہ باقی تمام کلاس کے طلباشرکت کرتے ہیں اس کلاس کے بعد ہر جماعت کی جداگانہ کلاسیں اپنے مقررہ وقت میں ہوتی ہیں۔
علمی صلاحیت کو پروان چڑھانے کیلئے اقدامات
مادر علمی کے طلاب کے علمی صلاحیت کو بڑھانے کیلئے دیگر پروگرام درج ذیل ہیں:
۱۔ مباحثہ :
نماز ظہر اور عصر کے درمیان نماز عصر سے ایک گھنٹہ قبل طلباء قیلولہ کے بعد مباحثہ میں شریک ہوتے ہیں اور ہر جماعت کے طلبہ اپنے گزشتہ روز کا سبق اجتماعی مباحثے کی شکل میں دہراتے ہیںیہ منظر بھی انتہائی خوبصورت ہوتا ہے اور اس حالت کو صبح کے وقت فضا میں پر ندوں کی چہچہاہٹ سے تشبیہ دی جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
۲۔ مطالعہ
نماز عشاء کے بعد رات گیارہ بجے تک طلباء مطالعہ ہال میں انتہائی خاموشی کے ساتھ اسی دن کے تمام اسباق یاد کرتے ہیں، مشقیں کرتے ہیں یہ عمل انفرادی طور پر ہوتا ہے۔ اسی دوران انتہائی خاموشی لازمی ہوتی ہے تاکہ دوسرا طالب علم کا ذہن منتشر نہ ہو اور وہ انتہائی یکسوئی کیساتھ اپنا درس ذہن نشین کر سکے۔ یہ وقت روز مرہ معاملات میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس لئے اس اصول پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے ۔
۳۔ بزم ادب:
طلباء کی جھجھک کے خاتمے، قوت بیان اور فن خطابت میں مہارت پیدا کرنے کیلئے ہر شب جمعہ کو بزم منعقد ہوتی ہے جس میں تلاوت ، نعت خوانی اور تقاریر کے ذریعے طلبا نہ صرف اپنی صلاحیتیوں کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے انداز خطابت بھی سیکھتے ہیں۔ طلباء باری باری یہ ذمہ داریاں اٹھاتے ہیں تاکہ ہمارے مستقبل کیلئے یہ معمار ایک بہتر عالم باعمل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فصیح وبلیغ اور شعلہ بیان خطیب اور مقرر بھی ہوں، اور تبلیغی امور اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کے انجام دہی ان کیلئے آسان ہو۔ اسی محفل سے طلبا نظامت کے فرائض سنبھالنے کا گر بھی سیکھتے ہیں ۔

فن خطابت کی مزید تربیت
اس مقدس ادارے میں طلباء اور عالم وعمل کے تمام مواقع فراہم کرانے کے ساتھ ساتھ فن خطابت پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے درج ذیل پر وگرام اس مادر علمی میں انجام پاتے ہیں۔
۱۔ جمعہ کے خطبات کی خصوصی تیاری:
طالب علم کو پہلی مرتبہ خطبہ دینے کے پہلے جناب پرنسپل صاحب خصوصی توجہ کے ساتھ طلباء کی فن خطابت کے رموزات اور زیر و بام سے عملًا آگاہ کرتے ہیں اور عملی طور پر مشق کراتے ہیںاور ہر لحاظ سے مکمل تیاری کے بعد انہیں خطبہ دینے کی اجازت دیتے ہیںاس لئے ہمارے طلباء کا پہلا خطبہ ہونے کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص ایک تجربہ کا رخطیب ہے اور دوران خطبہ کسی قسم کی کمزوری نظر نہیں آتی ۔
۳۔ تعطیلات کے موقع پر فن خطابت کی خصوصی تربیت :
ہردوسال بعد جب ہمارے ادارے میں دو مہینے کی تعطیلات ہوتی ہیں تو تمام طلباء کو فن خطابت کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے اور ایک خطیب کے لئے درپیش تما م مسائل سے ا ٓگاہ کیا جاتا ہے اور شعلہ بیان خطیب کی تربیت دے کر اپنے اپنے علاقوں کو روانہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ تبلیغ دین احسن طریقے سے انجام دے سکیں۔
۴۔ محافل ومجالس چہاردہ معصومین ؊:
جامع مسجد میں منعقد ہونیوالی عید کی تمام محافل میں یہ طلبا باری باری خطابت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں اور فضائل ائمہ معصومین ؊ بیان کرتے ہیں۔ ایک طرف ائمہ معصومین ؊کے حوالے سے معلومات میں اضافہ ہو اور دوسری طرف انہیں خطابت میں ہچکچاہٹ اور جھجھک نہ رہے اورایک باصلاحیت تجربہ کار اور بے دھڑک خطیب کی حیثیت سے فارغ التحصیل ہوکر اپنی قوم وملت کی خدمت میں مصروف ہوں۔
یہ وہ تمام علمی وعملی امور ہیں جو کہ اس مادر علمی میں قوم وملت کے نسل نو کی دینی تربیت کے حوالے سے انجام پاتے ہیں اس کے علاوہ قرب و جوار کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ناظرہ قرآن پاک، دعوات و فقہ کی تدریس کیلئے بھی انہی طلبہ سے خدمات لی جاتی ہیں۔ یہ طلباء بلامعاوضہ قوم کے بچوں کو اپنی استعداد کے مطابق قاعدہ قرآن سے لیکر فقہ الاحوط اور ترجمۂ قرآن تک پڑھاتے ہیں اس طرح اس مادر علمی میں تربیت پانے والے طلباء کو تدریسی عمل میں بھی اچھی خاصی مہارت اور تجربہ حاصل ہوجاتا ہے ۔
چوبیس گھنٹے کے دوران جاری ان تمام نیک امور کی انجام دہی کا سہرا اساتذہ، منتظمین سمیت ان خدمت گزاروں اور معاون عوام الناس کو بھی جاتا ہے کہ جو جانی ، مالی ، قولی، قلمی اور فعلی خدمات سرانجام دے کر اس گلشن کو ہرا رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں یقینًا اس کا ثواب لامتناہی ہے اور خوش قسمت ہیں ہماری قوم جن کی خوب محبت، تعاون اور حمایت کے باعث یہ دینی مشن اپنے جوبن پر ہے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جواپنی دین ودنیا دونوں میں نیک نامی اور آخرت میں عظیم کامیابی کے مالک بن جاتے ہیں۔
دعاگو ہوں اللہ ہم سب کو اسلام کی آبیاری کیلئے اپنا سب کو کچھ قربان کرنے کی توفیق دے اور دین حق کی سر بلندی اور خدمت کی راہ میں استقامت دے ۔
وماتوفیقی الا باللہ العلی العظیم
اللھم صل علی محمد وآل محمد
بقلم خو دمحمد محسن اشراقی بلغاری مدرس جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ ٹرسٹ(رجسٹرڈ)وامام وخطیب جامع مسجد صوفیہ امامیہ نوربخشیہ محمود آباد کراچی مورخہ 12/11/2015 بروز منگل وقت ٹھیک 2.00بجے دوپہر کمرہ نمبر ۱ جامعہ ہٰذا۔