ملت کے استحکام میں جامعہ کاکردار


پروفیسر سید حسن شاہ شگری
سب سے پہلے اس بات کاتعین کرناہوگاکہ کوئی بھی ملت عدم استحکام کاشکارکب ہوتاہے اور کیوں کرہوتاہے اس کی کیاوجہ ہے؟ایک بہت عمیق اور وسیع موضوع ہے اس پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں مگر ناچیزکو اس پرمضمون لکھناہے دریاکوکوزے میں بند کئے بغیرکوئی چارہ ندارد۔
ملت ایسے یقین پرمبنی ہوتاہے کہ جس کی جڑیں انسانی تصور کی گہرائیوںمیں ہوتی ہیں۔ اس کی نوعیت اس کی معنیٰ میں معقول نہیں ہوتی کہ اسے انسانی قلب میں منطبق یا دلیل کے ذریعے بٹھایاگیاہے۔ تاریخ ہمیشہ بڑے مذہبوں نے یہ کوشش کی ہے کہ اپنے احکام کی توجیہ کسی معقول انداز میں پیش کریں مگر ملت کی حقیقی لگن عقیلی فکرسے پیدانہیں ہوتی وہ ایک وجدانی خواہش ہے اس لئے تمام خداپرست ملت ومذہب نے ایسے پرستارپیداکئے ہیں جنہیں کسی نہ کسی ادارے میں سکون اطمینان ملاہے۔ ملت عد م استحکام کا شکار کب ہوتاہے اور کیونکرہوتاہے ا س کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں ۔ ان میں سے سرفہرست۔ دین سے بے گانگی ۔ ملت میں رخنہ اندازی ،عقلی وشعوروفہم کے ادراک میں کمی ،ملت کی اصلی حیثیت اور ہیئت کو مسخ کرنے کی کوشش ،نفسانی ہوس کی پرستاری ،علم وآگاہی سے غافل ، احساس ذمہ داری سے لاپرواہی ، علم کی پرورش کرنے والے علماء کی کمی ،مسلمہ عقیدہ نظریہ کومسخ کرنے کی کوشش، ملت کے اندر افراد کے درمیان گروہ بندی، جھگڑا،فتنہ وفسا د،برپاکرنے کی کوشش،عملی ،عبادات سے دوری،رہبراورنظام رہبر سے دوری اور ناآشنائی وغیرہ ملت کوعدم استحکام سے دوچارکرسکتاہے۔
مذکورہ حقائق میں جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کراچی کاکیا کردار رہا۔قبل اس کے وہ نظام کی طرف توجہ منذول کرناچاہوں گا۔لوگ اپنے اصل محور اور مرکزسے ہٹ جائے توکسی بھی قسم کا انقلاب ممکن ہوسکتاہے ۔ حالانکہ اس کا راستہ روکنے والاکوئی نہ کوئی ہو۔یہاں ضروری سمجھتاہوںمختصراً آگاہی رہبر اور علم کی ضرورت بیان کروں جس کے ادراک کے لئے ادارہ نے بہت اہم کردار داکئے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ ورسولہ وسواء واولی الامر منکم ۔
امت مسلمہ کے اندر مرجع او رعوام سے ربط وضبط رکھنے والے شخص کو رہبرکہلاتاہے۔ اس کے پیروکار اس کے افکار ونظریات سے استفادہ کرتے ہیںاور عوام رہبرکے نقش قدم پر چل کر اپنی زندگی کا راستہ معین کرتے ہیںرہبرکا مفہوم اتناوسیع ہے کوئی فکری مرجعیت کے ساتھ ساتھ سیاسی زعامت کو بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ اسلامی رہبر سے ہٹ کرغیر اسلامی مذاہب کے اندر بھی رہبرکا تصور موجودہے دنیا کے بہت سارے فلاسفر اور ماہرین علم الانسان نے انسانی اورمذہب کے بارے میں متضاد وخیالات پیش کئے ہیںرائی میں ٹیلی (Taili)کا ہین ،جادوگرعورتوں کو اپنارہبرتسلیم کرتے ہیں۔عراقیوںکے سمیری دیوتاہویاعراق کے سامی النسل اکاوی کے بعد باب ایل (خداکا دروازہ )نرگل اور ٹک کورہبرتسلیم کرتاہے بعدمیںا یشویری قوم نے رہبریت سنبھالا۔ یا قدیم مصریوں کے اوسپرس اور اے نونس رہبرتھے۔ یاچین میں کنفوشش اور لاوزے سے پہلے یاان کو سب کچھ سمجھتے تھے ۔بعدمیں لاوزے تاومت نے انکی جگہ لے لی ۔ آرایاؤں کے دیدہویابرہمناہو۔یا جن مذہب کے لینشت ومہابیرہوجوکہ تم بدھ کے ہم عصر تھے مہابیراور گوتم بہت بہت بڑے مصلح گزرے ہیں۔بعدکے ہندودھرم کے نرسنگ اورام مندریایاسکھوں کے گرونانگ ہو یاآذر بائی جان کے ہواور شیاسپ کا بیٹا زرتشت ہویا کمیونزم کا جارج پوسٹر ،مارکس اور انجلس ہو یافلسفی ہراقلیطوس ہو انہوں نے آئیڈلزم کرکے میٹریلزم کو رکھ لیا۔
مذکورہ بالاتما م رہبران قوم کا انسان نے خود رہبر تسلیم کیااور رہبروں نے اپنی صلاحیت کو بروے کار لاتے ہوئے رہبر تسلیم کروایاالغرض رہبر کے بغیر قوم چل سکتی ہے اور نہ ملت چل سکتی ہے۔اللہ نے قرآن میں اسلام کے رہبرکو ملت اسلامیہ پر بہت بڑااحسان گرداناہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولامن انفسھم یتلوعلیہم ایت۔۔۔۔الیٰ
ایضااًادع الیٰ سبیل ربک باالحکمۃ۔۔۔۔۔
تم اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحتوں کے ساتھ ان کوبلاوااور ان سے اس طریقہ سے بحث کروجوبہت ہی اچھاہو۔
ایضاًقل ھٰذہ سبیلی ادعوا۔۔۔۔وماانامن المشرکین ۔
مذکورہ آیات میں دعوت الیٰ الحق اصلاح معاشرہ اور انبیاء کے ذریعے پیام الٰہی کا تذکرہ ہواہے
ایضاً۔ولتکن منکم امۃ یدعون۔۔۔اولائک ھم المفلحون۔
ایک بہترین رہبر کاکام یہی ہے کہ نظام اسلام اور تعلیمات قرآن کے مفاد اور بقاء کا سامان فراہم کرسکے۔ہرخطے میں بسنے والے انسان کی تجارت ،فلاح ،ہدایت انفرادی اور اجتماعی سطح پر اخلاقی اور اصلاح کا عمل کسی وقفہ کے بغیر یداًبیداً جاری وساری رکھاجاسکے کسی قسم ک انحراف ملت کے اندر پیدانہ پائے اور مسلمانوں کے اندروحدت فکر اور وحدت عمل کا فضاء ہمیشہ برقرار رکھاجائے ۔
وقال علی علیہ السلام ۔فاعلم ان افضل عباداللہ عنداللہ امام عادل ھدی وھدی۔
میں نے ملت کی انحطات پذیری میں بہت ساری عوامل میں سے دو عمل کولیاہے۔ ایک رہبرسے دوری ودوسراعلم کی زوال پذیری ۔ اب علم کی اہمیت اور زوال پذیری سے ملت کس قدرکمزور ہوتاہے ذراملاحظۃ فرمائے۔فرعون ہامان کو لے کے مصر پہنچا پہلے داروغۃ قبرستان پھر خزانچی اور خزانچی سے مکروفریب چاپلوسی کی بناء پربادشاہ کے مرنے کے بعدحکمران (یعنی بادشاہ)بن گیاہامان سے بے گانہ گی اور اصل خداسے دوری کے لئے ضروری ہے علماء دین اورخداکی معرفت رکھنے والوں کاخاتمہ ہوا اگریہ چاہتے ہیںتو مدرسہ پرپابندی لگاؤ انہیں بندکرو تاکہ علم کادروازہ بندہو جائے جہل آئے تب تجھے خداکہے گااس پر عمل کرتے ہوئے فرعون نے کام کیاتمام مدرسوں پرپابند کردیاعلماء اور دینی معرفت والے ختم ہوگئے پھر خداسے ہٹاکربدھ پرستی کا حکم دیاجب راہ حق سے ہٹ گئے تو اپنے آپ کو خداکہلاوایا۔
معززقارئن مدرسہ کی اہمیت اورمخالفت کا اندازہ فرعون کے مشن سے اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
۔ واللہ اخرجکم من بطون امھاتکم لاتعلمون شیاء۔
اللہ نے ہم سب کوماں کی پیٹ سے جاہل پیداکئے بعدمیں کہاکہ
علم الانسان مالم یعلم
وغیرہ جب انسان پیداہوتاہے تو مقام میںہوتاہے کیونکہ انسان حیوان میں سے ہے کہ کھانے پینے کے سوا کچھ نہیں جانتابعدمیں بتدریج باقی صفات اس میں پیداہو جاتی ہے جیسے شہوانی غضبانی قوتین ،حرص،حسد،بخل جو صفات کمالیہ کے حجاب ہیں ۔عقل کے ظہور کے بعد انسان کو جاہ سے زیادہ کوئی صفت عزیزنہیںہوتی جاہ کے اسباب وذرائع سے علم سے زیادہ اعلیٰ او ر کسی سبب کو نہیںسمجھتاپس اگر میسرہوتو طلب علم میں پیش قدمی کرتاہے علوم کی دوقسمیں ہیں ایک شرعی اور عقلی پھر ان کی دوقسمیںہیں لازم اور متعدی ۔
شرعی ۔ جو لازمی اور کسبی ہے ضروری علوم کا حصول بھی فطری بلکہ غزیر ہ ہوتاہے۔
کسبی:۔کسی علم کاحصول تعلیم اور استدلا ل سے ہوتاہے حضرت علی ؑکا فرمان ہے کہ رائت العقل عقلان متبوع ومسموع لاینفع المسموع اذالم یکن متبوع ۔کمالاینفع الشمس: ونور العین ممنوع۔
عقل اور علم کی دوقسمیں ہیں ایک اتباعی ہے اور دوسرا سماعی سماعی کافائدہ نہیں ہوتاجب تک اتباعی نہ ہویعنی اس پر عمل نہ کیاجائے جیساکہ سورج کی روشنی اس آنکھوں کے لئے کوئی فائدہ نہیں دیتاجب تک دیکھائی نہ دے۔ نبی کافرمان ہے ۔ کہ خلق اللہ خلقاً اکرم علیہ من العقل ۔ اللہ نیت عقل کو مکرر بنایا بذریعہ عقل اور علم انسان کو مشرف بنایا۔حضورﷺ کافرمان ہے کہ العلم علمان علم ثابت بالقلب وھو علم النافع علم بالسان وھو حجۃ اللہ فی عبادہ۔جو علم دل پر ثبت ہووہ علم نافع ہے فائدہ مند ہے جوعلم زبان سے تعلیم دی جائے اورلوگوں پر اللہ کی حجت ہواین علم فریضہ نہ نتوانی۔تحقیق صفات ندانی یہ علم فریضہ جب تک حاصل نہیں کرے گاصفات حق کی تحقیق نہیںجان سکتی ۔ اگر انسان میںعلم ہوتو فکر وتدبیرسے کام لیتاہے علم اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک اہم صفت ہے۔ علم خیر وشر میں امتیاز کا ایک ذریعہ ہے اسی علم کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اقوام کوترقی اور سربلندی بخشتاہے انہیں نیکوں ایسارہنمابنادیتاہے۔کہ ان کی پیروی کی جائے ان کے اعمال کو قبول اور ان کی سیرت کوچراغ راہ قرار دیتاہے فرشتے مقام علم کی طرف راغب ہوتے ہیں جب وہ نماز پڑھتے ہیںتو فرشتے پر بچھاتے ہیں کیونکہ دلوں کی حیات ہے ۔ جہالت کے مقابلے میںآنکھوں کانور قوت بدن ہے علم ہی کے ذریعے اللہ کی عبادت اور اطاعت ہوتی ہے اللہ کی معرفت ہوتی ہے علم ہی کے ذریعے حلال وحرام کی تمیز ہوتی ہے اورعلم وعقل کا امام ہے اور عقل اس کی اتباع کرنے والی ہے سعادت مندکو علم حاصل کرنے کاموقعہ ملتاہے یاعلم کی پرورش کی معاونت کرتاہے بدبخت اور شقی لو گ ا س کی مخالفت کرتاہے۔بس میں اتناکہوں گاکمال انسانیت کاحصول حصول علم پر موقف ہے کہتے ہیں قیامت کے دن قلوب مردہ ہوجاتے ہیںسوائے ان قلوب کے جن میں چراغ معرفت خداوندی روشن ہو۔ا س لئے امام کا فرمان ہے کہ ۔العلم حیواۃ القلوب من الجھل علم ۔علم ایک ایسی چیز ہے جو انسانوں کو جہالت کی تاریکی سے نجات دلاکرحیات جاویدانی بخشنے والی ہے تمام جانوروں میں افضل مخلوق انسان ہے صحیح معنوں میں انسان بننے کے لئے زندہ دل اور بیدار آنکھوں کی ضرورت ہے علم بیدار آنکھوں کی ٹھنٖڈک ہے ان سب باتوں سے انکار نہیں کرسکتاکہ علم کو تمام نعمتوں پر فضیلت اور فوقیت حاصل ہے اس کے بغیرحیات بے مراد اور بے مقصد ہے بقول امام ۔لاغنیٰ کالعلم ولافقر کالجھل۔علم جیسی کوئی دولت نہیںاورجہل جیساکوئی غربت نہیں اما م کا فرمان ہے۔ کہ رضیناقسمۃ قسمۃ الجبار فینالناعلم وللجھال مال ۔تو اگر ملت کواستحکام بخشتاہے تو علم ملت نوربخشیہ کاانحطاط پذیری کاشکارتھاعلم کانورماندپڑنے جارہے تھے،رہبرکی معرفت معدوم ہوتے جارہے تھے یہ وہ چیز یں یعنی رہبرسے دوری یاعدم معرفت اورحصول علم سے بے رغبتی یہ دونوں چیزیں ملت کو عدم استحکام کی جانب لے جانے میں اہم کردار اداکرسکتے ہیں ۔اتنے میں وقت کے رہبرسید عون علی الموسویؒ نے محترم شیخ سکندر حسین کو بھاری ذمہ داری کے ساتھ مذکورہ دونوںچیزوں کی احیاء کے لئے کراچی بھیجااحیائے ملت کے لئے کراچی کیوں منتخب کیایہ ایساہے جیساکہ اللہ کے حکم سے محمد مصطفیؐ نے احیائے اسلام اور استحکام اسلام کے لئے مدینہ کیوں منتخب کیایہ ایک راز ہے جو راز ہی میں رہنے دوبلتستان اور دیگرشہروں قصبوں میں نماز پڑھانے تک کاکوئی اخوند نہیں ملتاتھاعالم تو کجاحصول علم کے مشتاق دائیں بائیں جاکے علم حاصل کرتے تھے یہ علم مسموع تو تھی مگرمتبوع نہ تھی جب تک علم متبوع نہ ہوکوئی فائدہ نہیں ہے جیساکہ کما لاینفع الشمس والنور العین ممنوع اندھے کو سورج کی روشنی کیافائدہ دے سکتی ہے مگرا للہ کا فضل وکرم ہے مذکورہ ادارہ (جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ )میں علم مسموع او ر متبوع دونوں ملتی ہے ناچیزکو رہبرکے حکم سے کئی سال اس ادارے کی خدمت کاموقعہ ملام مجھ سے زیادہ بہتر اس ادارہ کی حقیقت اور اندررونی کہانی کون جان سکتاہے تبھی ناچیز نے چند سطر لکھنے کی جسارت کی علم مسموع کے لئے محترم شیخ سکندرحسین صاحب کی کاوش ،محنت، لگن ،صبر استقامت اور استقلال وغیرہ قابل تعریف ہے ساتھ ہی اللہ نے انہیں بہترین معاونین بھی فراہم کیاکراچی اور بیرون کراچی بلکہ پورے پاکستان خصوصاً نبلتستان کے ہر مرد وزن عوام کی تعاون اس ادارہ کے ساتھ رہی ہے نامساعد حالات میں کمر کس کے میدان میں اترا کامیابی کے قدم چومنے تک ساتھ رہے۔ کراچی کے عوام اور خصوصاًمحلہ کے عوام بوڑھے بچے خواتین کی قربانیاں دیدنی ہے شاباش اس قوم کو جنہوں نے اپنی کاوش سے اس علم کے چراغ دان کوٹھنڈاہونے نہ دیابلکہ سپربن کرتندی باد مخالف کوروکا۔چراغ کو بجانے والے پھونکوںکے دم ٹوڑ دئے بلکہ ٹھنڈاکردیاکہنے کو بہت ہے مگر صفحہ اجازت نہیں دیتا شروع میں عرض کیایہ ایک مضمون ہے وگرنہ دل تو کرتاہے اس پر ایک کتاب لکھی جائے کیونکہ داستان علم کون بھول سکتاہے علم ہی نے انسان کو فرشتوں سے افضل بنادیا علم الادم اسماء نے فرشتوں کودرطہ حیر ت میں ڈال دیااسی علم کی آگاہی اور فروغ کیلئے ادارہ کی خدمات لائق تحسین ہے اب کوئی شہر کوئی گاؤں ایسانہیں ہے اس ادارے کے چراغ زیور علم سے آراستہ ہو کر فائدہ تام بخشتانہ ہوہرخطہ اس سے مستفیدہورہے ہیں اب امید پیداہوئی ہے پھونکوں سے یہ چراغ بجایانہ جائے گا۔
اس ادارہ کی اہم خصوصیات یہ بھی ہے کہ ملت کواستحکام بخشنے کااہم کڑی بلکہ ستون کہے محوراور مرکز کے مقام ،اس کی اہمیت اورضرورت کواجاگرکرنے میں اہم کراداراداکیاسب سے ضروری با ت یہ ہے کہ جامعہ ٹرسٹ رجسٹرڈ کیااس کا سربراہ پیر طریقت کورکھاگیاانجمن کے قواعدوضوابط میں ترمیم واضافہ کرکے پیرطریقت کوسربراہ رکھاگیا۔رہبراکاؤنٹ کھولاگیا وغیرہ وغیرہ قبل اس کے کسی بھی انجمن یاادارہ نے ایسانہیںکیاتھایہ ملت کی استحکامیت کے لئے بہت اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے رہبر او رعوام کے درمیان روابط پیداکیارہبرکی ضرورت اور افادیت کو عوام میں ایسااجاگرکیاجب کہ ایک وقت ایسا آنے لگا عوام محسوس کرنے لگے تھے ۔(What is Rehber and who is Rehberیہ تما م چیزیں آنکھوں دیکھاحال ہے اس میں ناچیز کوئی مبالغہ نہیں کررہاہے علم متبوع کی مثال یہ ہے کہ اس ادارہ کے طالب علم پرلازم ہے کہ وہ تہجد (نماز شب )پڑھے پانچ ووقت کی نماز باجماعت اداکرے دعائے صبحیہ ،اوراد صبحیہ اور اوراد عصریہ پڑھتے وقت شامل رہیں۔چہادہ معصومین علیھم السلام کے ایام مولود وفات کے ایام اعیاد وغیرہ خود ادارہ میں الگ ریاضت کے طورپربجالائیں اچھے کرداراوراخلاق حمیدہ اپنانے پر نہ صرف زور دے بلکہ عملی ثبوت فراہم کرنے دیں ۔بلکہ امتحان کے نتیجہ میں نما زتہجد نماز باجماعت میں حاضری ،اواد فتحیہ عصریہ میں حاضری کے باقاعدہ نمبر درج تھے سالانہ نتائج سناتے وقت یہ بھی اعلان کرتے تھے شایدایساعلم مسموع او رمتبوع کہیں چراغ لے کر ڈھونڈنے کو نہ ملے ادارہ کے کردار استحکام ملت کے لئے سنکڑوں ہیں مگر ناچیز نے ان دوکو اہم سمجھااور چند سطور لکھ دئے میں پھر دوبارہ اس ادارہ کے چلانے والے ،سنبھالنے والے اور اس کی مددرکرنے والوں کوڈھیر سارے تہنیت اورسلام کے ساتھ آفرین کہوںگااوردعاکروں گا کہ اللہ ان سب کوخوش رکھے سلامت رکھے دنیاواخرت دونوں میں جزائے خیر عطاکرے۔والسلام