حضرت علی علیہ سلام


حضرت امام المتقین علی ابن ابی طالب علیہ السلام
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
قال اﷲ تعالیٰ فی قرآن المجید: ا نا عرضنا الاماتہ علی السموت والارض و الجبال فابین ان یحملنھا و اشفقن منھا و حملھا الانسان انہ کان ظلوما جھولا۔ (سورہ الاحزاب پارہ ۲۲ آیت ۷۱)

ترجمہ:بیشک ہم نے اس امانت کو آسمانوں کے اور زمین کے اور پہاڑوں پر پیش کیا تو ان سب نے اس کے اٹھا نے سے انکار کیا اور اس سے ڈرگئے اور انسان نے اس کواٹھالیا یقینا وہی انسان اپنے حق میں بڑا ظالم نادان تھا ۔
حضرت امام جعفر صادق ؑ سے منقول ہے کہ امانت سے مراد امامت اور ولایت امیرالمومنین علی بن ابی طالب ؑ ہے اور الانسان سے مراد برائیوں کا مجموعہ منافق ہے۔
صاحب تفسیر حسینی ملا حسین واعظی ؒ نے بحوالہ حضرت میر قاسم فیض بخش قدس اﷲ سرہ خلف رشید سید محمد نور بخش قدس اﷲ سرہ امانت سے مراد خلافت ربانی ہے ۔(تفسیر حسینی ص ۶۸۴)
تفسیر مظہری میں حدیث رسول اﷲ ؐ مرقوم ہے کہ
قال النبی ؐ ما بلغ احد من الامم السابقۃ بدرجۃ الاولیاء بتوسط روح علی ابن ابی طالب ۔مشارب الاذواق سید علی ہمدانی ص ۵۳
یعنی امت سابقہ میں کسی فرد کو بھی درجہ ولایت حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کی روح کے توسط کے بعد نہیں ملا ۔
مکتب تصوف کے ساٹھ (۶۰) سلاسل میں سے جن میں صرف نقشبندیہ جو حضرت ابوبکر سے ملتا ہے باقی تمام سلسلے حضرت علی ؑسے ملتے ہیں سب آپ کو قطب الاقطاب ٗ قطب العارفین سمجھتے ہیں ۔ (شرح گلشن راز ۱۳۰ ٗ انسان کامل ص ۱۲۶)
او ولی حق بود ھر خاص وعام
نعمت حق برشما زوشد تمام
دین اسلام از علی ؑکامل شود
بے ولایش کیش ودین باطل شود
این ولایت اصل دین ونعمت است
خلق را از حق نشان عزت است
تفسیر صفی علیشاہؒ
حضرت شاہ ولایت ٗ امام اہل تصوف ٗ امام المتقین حضرت علی ؑ کی ولادت تیرہ (۱۳) ماہ رجب جمعہ کے دن عام فیل کے تیس ( ۳۰) سال بعد بیت اﷲ شریف میں ہوئی ۔ محدث دہلوی شاہ ولی اﷲ ؒ لکھتے ہیں کہ
قد تواثرت الاخبار ان فاطمتہ بنت اسد ولدت علیا فی جوف الکعبۃ۔ ازالتہ الخلفاء ج ۲ ص ۲۸۷
یعنی اخبار متواترہ سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد نے حضرت علی ؑ کو خانہ کعبہ کے اندر جنم لیا ۔ یہ بات درج ذیل کتابوں میں بھی لکھی ہوئی ہے۔ ( مستدرک حاکم ج ۳ ص ۴۸۳قرۃ العین فی سیرت الشخین شاہ ولی اﷲ ص ۱۳۸ ٗ تذکرۃ خواص الائمہ سبط ابن جوزی ص ۷)
ملا حسین کاشفی روضہ الشہداء میں رقمطراز ہیں کہ
پیش ازین بیت المقدس قبلہ بود
خلق عالم فی نمود انجا سجود
چون تولد کرد درکعبہ علی
گشت کعبہ قبلہ از نص جلی
جای مولودش چوشد مسجود ما
پس چہ باشد قدر اوبیش خدا
روضۃ الشہداء
بعض مفسرین نے کعبہ شریف میں ولادت علی ؑ کے ضمن وشہادت میں قرآن شریف کی یہ آیت بھی نقل کی ہے
لا اقسم بھذا البلدہ و انت حل بھذا البلد و والدو ما ولد۔(سورہ بلد پ ۳۰)
مجھے اس شہر مکہ کی قسم اور تم اسی شہر میں رہتے ہو اور ایک والد اور اس کی اولاد ولد کی قسم ۔
تفسیر اسرار المصحف میں مرقوم ہے کہ ووالد و ما ولد سے حضرت آدم ؑ اور اس کی وہ اولاد جو انبیاء و مرسلین ہیں ٗ مراد ہے بروایت دیگر حضرت ابراہیم ؑ اور اس کی اولاد مراد ہے ۔ تفسیر برہان میں روایات اہل بیت ؑ کی روشنی میں والد سے حضرت علی ؑ اور اولاد سے مراد آئمہ طاہرین ؑ ہیں لیکن اس ’’والد ‘‘سے مراد سرور کائنات ؐ اور’’ وماولد‘‘ سے شاہ ولایت علی مرتضٰی ؑ ہے کیونکہ شان رسول ؐ میں ہے۔
لولاک لما خلقت الافلاک
کتاب سیرت علویہ ج ۱ ص ۲۱ میں مرقوم ہے کہ خانہ کعبہ کے اندر حضرت علی ؑ کی ولادت رسول اﷲ ؐ کے حکم کے مطابق ہوئی ۔ خود والدہ ما جدہ امام علی ؑ فرماتی ہیں کہ جب ولادت کا وقت قریب آیا تو ایک دن میں طواف خانہ کعبہ میں مشغول تھی طواف کے چوتھے چکر میں رسول اﷲ ؐ نے میرے چہرے پر تکلیف کے آثار دیکھ کر فرمایا کہ کیا آپ نے طواف مکمل کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ طواف پورا کریں اور گر ضرورت محسوس ہوئی تو خانہ کعبہ کے اندر چلی جائیں ۔
حضرت عباس ابن عبدالمطلب ؓسے مروی ہے کہ میں نے اسی وقت دیوار کعبہ کو شق ہوتے دیکھا ۔ اور فاطمہ کعبہ کے اندر جا کر ہماری نظروں سے غائب ہوگئیں ہم بھی جانا چاہتے تھے مگر بحکم خدا سے دیوار میں شگاف اور دروازے بند تھے ۔ خوش قسمت زائریں جو کعبہ کے اندر گئے ہیں ان کا بیان کعبہ کی دیوار پر اس شگاف کی نشانی تقریبا ً ۱۴۳۲ سال گزر جانے کے اور چاندی کی ملمع کاری کے با وجود اب بھی دکھائی دیتا ہے ۔ حضرت فاطمہ بنت اسد تین دن تک کعبہ کے اندر رہیں مکے والے یہ واقعہ تمام کوچہ و بازار میں قل کرتے رہے اور چوتھے دن محمد مصطفی ؐ درواز نے سے کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور حضرت علی کو آغوش میں لے کران کے چہرے پر اپنا چہرہ مبارک رکھا اور علی ؑ نے سب سے پہلے کسی چیز کو چو سادہ محمد ؐ کی زبان تھی ۔ جو
و ما ینطق عن الھویٰ ان ھواِلآ وحی یوحیٰ۔ سورہ نجم ۵۳ آیت ۳۔۴
یعنی حضور پاک ٌ حکم خدا کے علاوہ اپنی مرضی سے کوئی بات نہیں کرتے۔
کے اسرار سرچشمہ و منبع ہے جیسا کہ امیرالمومنین امام المتقین ؑ نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ
ہذا لعاب رسول اﷲ فی فمی۔
ترجمہ: میرے منہ میں یہ رسول اﷲ ؐ کالعاب مبارک ہے۔ (نہج البلاغہ)
اور حضرت علی ؑ نے اپنی والدہ محترمہ کا دودھ نہ پینے میں یہ راز مضمر تھا کہ آپ سب سے پہلے رسول اﷲ ؐ کی زبان اطہر چوسنا چاہتے تھے کیونکہ یہ منبع علم لدنی تھا ۔ حضرت امام ابو داؤد ؒ نے راویت کی ہے کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم سے پہلے اور بعد میں کسی شخص کو بھی کعبے شریف کے اندر پیدا ہونے کا شرف حاصل نہیں ہوا معتبر روایت میں آیا ہے کہ باپ نے اس کانام زید اور ماں نے اسد رکھا اور سرور کونین ؐ نے فرمایا کہ اس مولود کانام علی بہت زیادہ اچھا ہے اور عالی ہمتی کی دلیل ہے فاطمہ بنت اسد نے بات سنی تو کہا خدا کی قسم میں نے ہاتف کویہ آواز دیتے سناتھا کہ اس بچے کانام علی رکھنا یعنی ۔
فاسمہ من شامخ علی علی اشتق من العلی۔
چنانچہ حضرت علی ؑ کا یہی نام مقرر ہوگیا ( روضۃ شہداء)اہل دانش و بینش سے یہ بات مخفی نہیں کہ فضاء کل علی ؑ نہ کوئی زبان بیان کرسکی نہ کسی کتاب میں سماسکی بلکہ جن و انس ٗ ملائکہ سموات ان کی درجات کا ادراک نہ کرسکے ماسوائے محمد ؐ کے ۔ اس لئے مولانا جامی کہتے ہیں ۔
کسے را مسیر نہ شد این سعادت
بکعبہ ولادت بہ مسجد شہادت
اس طرح خواجہ نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں کہ ؎
اگرخواہی کہ در محشرشفیعت مصطفی باشد
قسیم جنت و دوزخ علی مشکل کشاباشد
امامت را کسے شاید کہ شاہ اولیاء باشد
بزہد وعصمت و دانش مثال انبیاء باشد
امام دین کسے باشد کہ در وقت ولادت او
بود در کعبہ و کعبہ ذکعبش در صفا باشد
نظام الدین حیا دارد کہ گوید بندہ شاہ ام
ولیکن قنبر او رکمیہ یک گدا باشد
غرضیکہ رسول اﷲ ؐ کی یہ حدیث علی ؑ کے فضائل کے جملہ ابعاد کا احاطہ کرتی ہے
عن انس بن مالک ؑ قال قال رسول اﷲ ؐ ما من نبی الاولہ نظیر فی امتہ و من امتی علی ابن ابی طالب۔ سبعین فی فضائل علی بن ابی طالب ص ۹
ترجمہ:حضرت انس بن مالک ؑ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ؐ نے فرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں جس کی اپنی امت میں کوئی نظیر نہ ہو اور میری امت میں میری نظیر علی بن ابی طالب ؑ ہیں
القصہ رسول اﷲ ؐ کی شان یہ ہے ؎ بعد از خدا توئے بزرگ قصہ مختصر اور علی ؑ کی شان یہ ہے کہ بعد از مصطفی ؐ توئے بزرگ قصہ مختصر ۔ الغرض امام المتقین ؑ کے فضائل کا احاطہ ممکن نہیں ہے علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں کہ قرآن مجید کی ۳۰۰ آیتیں آپ کی شان میں نازل ہوئیں ۔ (صواعق محرقہ ص ۷۶ طبع مصر(
حضرت علی ؑ تمام کمالات نبوت کا مظہر اور تمام صفات ،درجات ، فیوض وبرکات اور انوار رسالت کا اسوہ حسنہ ہیں ۔ سید العارفین سید محمد نور بخش قدس اﷲ سرہ کی تمام تصانیف بالعموم اور فقہ الاحوط، کتاب الاعتقادیہ ، کشف الحقیقت، دیوان رسالہ در بیان آیت، نجم الہدیٰ ،چہل حدیث، معراجیہ، مکتوبات ٗ انسان نامہ و غیرہ بالخصوص مناقب علی ؑ سے بھری پڑی ہیں ۔ فقہ الاحوط میں لکھا ہے کہ نماز جمعہ کی امامت کے لئے اگر حضرت علی ؑ کی طرح جملہ صفحات و اسمائے الٰہی کا مظہر ہو تو یہ نور پر نور کا اضافہ ہے ۔ تواریخ میں لکھا گیا ہے کہ اٹھارہ ذی الحجہ کے روز حضرت نوح ؑ کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھری اور طوفان ختم ہوا بحساب قمری اس روز کا نام عید غدیر ہے اور بحساب شمسی عید نوروز ہے اﷲ تعالیٰ نے اس روز جملہ ارواح سے اقرار توحید کرایا اور تمام انبیاء و اولیاء سے نبوت محمدیہ ؐ و امامت علویہ ؑ کا اقرار لیا۔
تمام مومنین کرام کو جناب امیرالمومنین ؑ کی خلافت بلافضل خلافت مرتضوی عید غدیر و عید نوروز مبارک ہو ۔؎
نو روز شد و جملہ جہاں گشت معطر
از بوئے گل لالہ و نسرین و صنوبر
بر تخت خلافت بہشت آن شہہ ابرار
داماد نبیؐ شیر خدا ساقی کوثر
اسی بناء پر مومنین امامیہ صوفیہ المعروف بہ نور بخشیہ ہر سال نو روز کے دن نماز ظہر و عصر کے در میان چار رکعات نماز بدو سلام اس نیت سے پڑھتے ہیں۔
اصلی صلٰوۃ النیروز لندبھا قربۃ الی اﷲ۔ قلمی دعوات سید جلال الدینؒ بن سید مختار ا خیار ؒ
القصہ ۳۵ ھ نوروز کے دن اٹھارہ ماہ ذی الحجہ میں حضرت علی ؑ وصی رسول خدا ؐ خلاف حقیقی کے ساتھ خلافت ظاہری کے منصب پر جلوہ افروز ہوئے سو مولائے متقیان کے بارے میں ہمارے بزرگان دین یوں رطب اللسان ہیں ۔
سید علی ہمدانی قدس اﷲ سرہ ۔ ؎
پرسید عزیزی کہ علائی ز کجائی
گفتم بولایت علی کز ھمدانم
نے زاں ھمدا نم کہ نہ دانند علی ؑ را
من زان ھمدانم کہ علی ؑ راھمہ دانم
مشارب الاذواق ص ۲۶، آثارسید علی ھمدانی ( مجموعہ اشعار) ص ۴۹، خمخانہ وحدت علاء الدولہ سمنائی ( شرح احوال و مکاتبات) ص ۱۰۱ (
ہزاران تحفہ صلوٰت بی حد
زمابر آل اطہار محمد
ھما مہر محمد در سفر بود
بروج رفعتش اثنا عشر بود
محمد ؐ شمع جمیع انبیاء بود
وصی او امام اولیاء بود
محمد ؐ شہرعلمی با بھا بود
کہ درگاھش علی بابھا بود
امیرالمومنین نور ہدایت
امام المتقین شاہ ولایت
مشارب الاذواق ص ۸
علی ہم نام را بنگر کہ جز او
بااﷲ و محمد ؐ رہبرم نیست
آثار میر سید علی ہمدانی ( مجموعہ اشعار) ص ۴۴۹ ؎
گر بدر منیری و سما باشد منزل تو
و ز کوثر اگر سرشتہ باشد گل تو
گر مہر علی نباشد اندر دل تو
مسکین تو وسعیھائے بے حاصل تو
آثار سید علی ہمدانی ؒمجموعہ اشعار ص ۴۸۲
۲ ۔ سید محمد نور بخش قدس اﷲ سرہ
آنکہ را باشد خلافت از خدا
او بود بر کل عالم پیشوا
ترجمہ: ۔ جس کو خلافت خدا کی جانب سے عطاہو ، وہ تمام کائنات کار رہب اور پیشوا ہوتے ہیں ۔کشف الحقیقت ج ۶ ۔ ص ۸۹
خلق را فقاد نقد است و محک
مصطفی را جانشین بے ریب و شک
ترجمہ: ۔ وہ لوگوں کے لئے حق اور باطل میں تمیز کا معیار ہے اور محمد مصطفی ؐ کی بلا شک وہ جانشین ہیں ۔ (کشف الحقیقت ج ۵ ص ۵)
۳ ۔ سید نجم الدین ثاقب قدس اﷲ سرہ
علی ساکن تخت بلغ شناس
علی امر حق را مبلغ شناس
علی غنچہ باغ اواوالامر
علی زبرہ قوم خیرالبشر
علی سروگلزار اکملت دان
علی نخل بستان اتممت دان
ذاد الجنان قلمی ص ۲۲
۴ ۔ سید محمد شاہ زین الاخیار قدس اﷲ سرہ
نفس پاک مصطفی او بدر برج اولیاء
مخرج لؤلؤ والمرجان امیرالمومنین
شہر علم حق شناسی ذات پاک مصطفی
باب شہرومنبع عرفان امیرالمومنین
مصطفی بامومنان دروادی خم چوں رسد
برگرفت برمنبر پالان امیرالمومنین
پس بفرمودہر کہ را با شد منم مولائے او
گشت مولائی درکون براں امیرالمومنین
)نفحات طیبہ مرتبہ ابراہیم زائر ص ۱۰۴)
۵ ۔ سید عون علی قدس اﷲ سرہ
مولا سو چکلہ شیس نہ نا مولا علی ان کھو نی لزنیگ
از ایں حدیث حق چھودنہ گوید پہچان مولانا علیؑ
جہلی دے ظلمت پوینگ علی ان نوربخشی رہروان
عون علی کھریل ستروبیسے دامان مولانا علیؑ
نفحات طیبہ ص ۱۷۔
ترجمہ:۔ رسول اﷲ ؐ نے فرمایا کہ جس کا میں مولاہوں میرے بعد اس کا علی ؑ مولا ہے اگر یہ حق بات کسی کے سمجھ میں آجائے تو اسے میرے مولا کی پہچان ہوگی ۔ جہالت کے اس دورمیں ملت نور بخشیہ کے لئے علی ؑ ہی امام ہے اے عون علی تم مضبوطی سے تیرے مولا علی ؑ کے دامن کو پکڑے رکھو۔
۶ ۔ سید احمد نور بخش دھکردی
حقا کہ علی ولی مطلق باشد
از بعد نبیؐ وصی برحق باشد
باﷲ کہ خلیفہ بلا فصل علی ہست
ہر کس کہ جزاین سرور احمق ہست
برہان الحقیقت ص ۲۲۸
شیخ لاہیجی اسیری ۔ ؎
مرتضی آن منبع صدق و صفا
آن وصی و جانشین مصطفی
نفحات طیبہ مرتبہ ابراہیم زائر ص ۱۰۴
حضور اکرم ؐ کا ارشاد ہے کہ
عن بریدہ قال قال رسول اﷲ کل نبی وصی و وارث وان علیاوصی و وارثی۔ مودۃ القربی ٰ مودت ۴ ص ۴۷ ٗ شرح گلشن راز ص ۱۳۰
بریدہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ؐ نے فرمایا کہ ہر ایک پیغمبر کا ایک وصی اور وارث ہوتا ہے اور علی میر اوصی اور وارث ہے ۔
جب حضرت علی ؑ ظاہری منصب خلافت پر فائز ہوئے تو منافقین کی چاپلوسی کی وجہ سے مسلمان قوم خلفشار کی وجہ سے بٹ گئی ۔ امیر معاویہ نے حضرت علی ؑ کے خلاف بغاوت کرکے متوازی حکومت قائم کی ٗ جس کے نتیجے میں جنگ جمل، صفین اور نہروان لڑائی گئیں ۔ خلافت کے مقابلے میں ملوکیت ہی ملوکیت کی ترویج ہونے لگی ۔ حدیہ کہ منبر رسول اﷲ ؐ سے علی و آل علی ؑ پروشنام کو واجب گردانا گیا ۔ جب امام المتقین شاہ ولایت علی ؑکی شہادت مسجد کوفہ میں ہوئی تو شام کے بازاروں میں لوگ تعجب کا اظہار کرتے تھے کہ کیا حضرت علی ؑ بھی نماز پڑھتے تھے؟ جبکہ رسول اﷲ ؐ کا فرمان تو یہ ہے کہ
مثل علی بن ابی طالب فی الناس کمثل قل ھواﷲ احد فی القرآن رواہ صاحب الفردوس– السبعین ص ۹ سید علی ہمدانی ؒ
ترجمہ:رسول اﷲ ؐ نے فرمایا کہ لوگوں میں علی کی مثال قرآن میں سورہ قل ھواﷲ احد کی سی ہے ۔ یعنی اگر قرآن سے سورہ اخلاص کونکال دی جائے تو قرآن کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔
شہادت شاہ ولایت
ایک دن مسجد کوفہ میں کوفے کے سب اشراف و موالیان اور محبین موجود تھے مولائے کائنات ؑ منبر پر تشریف لائے اور خطبہ ارشاد فرمایا منبر کے دائیں طرف نگاہ کی تو امام حسن ؑ کودیکھ کر فرمایا ۔ یا بنی کم مضامن شھرنا ھذ ا ۔ اے میرے بیٹے اس مہینے کے کتنے دن گزر چکے ہیں ؟ شہزادہ نے عرض کیا بابا جان رمضان کے تیرہ دن گزر چکے ہیں پھر امام المتقین نے بائیں جانب امام حسین ؑ کو دیکھ کر فرمایا ۔ یا بنی کم بقی من شھرنا ھذا ۔
اے یرے بیٹے اس مہینے کے کتنے دن باقی ہیں؟ امام حسین ؑ نے عرض کیا ابا جان اس کے سترہ دن باقی ہیں ۔ اس کے بعد امام علی ؑ نے اپنے ریش مبارک پرہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا کہ میری داڑھی اس مہینے میں ایک بدبخت ترین آدمی کے ہاتھوں میرے سرکے خون سے رنگین ہوگی۔
لیغضبھا بد مھا اذ بعث اشقسھا
حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی قدس اﷲ سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؑ مسجد کوفہ میں اعتکاف فرما رہے تھے افطار کے وقت آپ کی خدمت میں ایک اعرابی حاضر ہوا حضرت علی ؑ نے چمڑے کے تھیلے سے جو کے ستونکال کراس میں سے کچھ اعرابی کو عنایت کیے اعرابی نے ستونہیں کھایا بلکہ اس ستوکوا پنے عمامہ کے ایک پلہ میں رکھ دیا اعرابی نے حسنین ؑ کے دولت کدہ پر حاضر ہو کردونوں شہزادوں کے ساتھ کھانا کھایا اور ان دونوں سے کہنے لگا کہ میں نے مسجد میں ایک مسافر بزرگ اودیکھا جس کے اس ستوکے سوا اور کوئی چیز موجودنہ تھی مجھے اس شخص پر رحم آتاہے میں اس کھانے میں سے کچھ اس شخص کے لئے لے جاتاہوں تا کہ وہ اس کھانے میں سے تناول کرلے دونوں شہزادے یہ سن کر روپڑے اور دونوں نے فرمایا کہ وہ ہمارے باپ امیرالمومنین امام المتقین حضرت علی ؑ ہیں اپنے نفس پر اس ریاضت کے ساتھ جہاد کرتے ہیں۔ (ذخیرۃ الملوک سید علی ہمدانیؒ بہ تصحیح و تعلیق ڈاکٹر سید محمود انواری دانشگاہ تہران ص ۲۴۳ ۔ ۲۴۴ ٗ ینابیع المودۃ شیخ سلیمان قندوزی ص ۲۳۰ لاہور، نور المومنین ص ۱۹۳۔(
مشہور واقعہ ہے کہ امام علی ؑ کو ایک ون حضرت ام کلثوم بنت فاطمہ ؑ نے جوکی روٹی کے ساتھ ایک پیالے میں دودھ ار دو سرے میں پانی اور نمک کے محلول سے بناسالن پیش کیا و آپ ؑ نے فرمایا بنت فاطمہؑ ! ان میں سے ایک ہٹایئے میں بروز قیامت اپنا حساب ہلکادیکھنا چاہتاہوں۔
خود امام المتقین ؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں اپنے ستوکے تھیلے کو امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ سے چھپاتا رہتاہوں اس خوف سے کہ کہیں وہ اس میں کوئی گھی نہ ملائیں ۔
جب ابن ملجم نے آپ ؑ کے سراقدس پر ضرب لگائی تو شہادت سے کچھ پہلے آپ ؑنے ارشاد فرمایا کہ ۔
و اﷲ ما فجاء نی من الموت وارد کرھتہ ولا طالع امشکرتہ و ما کنت الا کقارب و رد و طالب و حد و ما عند اﷲ خیر للا براد۔(نہج البلاغہ وصیت ۲۳(
ترجمہ: خدا کی قسم! یہ موت کا ناگہانی حادثہ ایسا نہیں ہے کہ میں اسے ناپسند جانتاہوں اور نہ یہ ایسا سانحہ ہے اسے براجانتا ہوں میری مثال بس اس شخص کی سی ہے جو رات بھر پانی کی تلاش میں چلے اور صبح ہوئے چشمے پر پہنچ جائے اور اس ڈھونڈنے والے کی مانند ہوں جو مقصد کو پالے اور جو اﷲ کے یہاں ہے وہی نیکوں کاروں کے لئے بہتر ہے ۔ ایک دو سری جگہ پر امام علی ؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔ و اﷲ لابن ابی طالب انس بالموت من الطفل بثدی۔()نہج البلاغہ خطبہ ۵)
خدا کی قسم بچہ ماں کے ؎پستانوں سے جس قدر الفت رکھتا ہے ابوطالب ؑ کابیٹا اس سے زیادہ موت کو عزیز سمجھتا ہے ۔
امام المتقین علی ؑ اپنے شگافتہ سر کے ساتھ مسجد کوفہ کی محراب میں ہیں اور اسی لمحہ شہادت کی عظمت اپنی زندگی کی معنویت و مقصدیت اور موت کے اقسام میں سے اپنی پاک و پاکیزہ موت کی نوعیت پر کمال توجہ کے ساتھ ایک نگاہ ڈالی اور آواز دی ۔ فزت برب الکعبہ پروردگار کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا ۔ القصہ ۲۱ رمضان المبارک کو آپکی شہادت ہوئی اور نجف اشرف میں دفن ہوئے۔؎
کسے را مسیر نہ شد ابن سعادت
بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت
خود امام المتقین ؑ اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔
فجعلت اتبع ماخذ رسول اﷲ ؐ فاطاء ذکرہ حتی انتھیت الیٰ العرج ۔نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۳
میں رسول اﷲ ؐ کے راستے پر روانہ ہوا اور آپ کے ذکر کے خطوط پر قدم رکھتا ہوا مقام عرج تک پہنچ گیا ۔ امام المتقین ؑ کی شہادت کی خبر جب امیر معاویہ کو ملی تو اس کی زبان سے بے ساختہ یہ فقرہ نکل پڑا ۔
ذھب الفقہ و العلم بموت ابن ابی طالب۔استیعاب ص ۱۴۵ ۔۳
ترجمہ: علی ؑ کی موت سے علم و فقہ کا خاتمہ ہوگیا ۔
ہم سلسلہ ذھب ٗ مکتب تصوف ٗ مذہب امامیہ صوفیہ المعروف نور بخشیہ کے لوگ ۲۱ رمضان کو صبح اوراد فتحیہ کے بعد حضرت علی ؑ کی نماز زیارت چار رکعت دو سلام سے پڑھتے ہیں جس کی نیت یہ ہے
اصلی صلوٰۃ زیارت علی المرتضٰی رکعتین قربۃ الی اﷲ۔ دعوات صوفیہ امامیہ
اس کے بعد مجلس عزا منعقد ہوتی ہے ۔