حضرت امام زین العابدین علیہ سلام


بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال اﷲ تعالیٰ فی القرآن العظیم ذالک الذی یبشر اللہ عبادہ الذین آمنو ا و عملوا الصالحات قل لا اسئلکم علیہ اجر اِلاَّ المودۃ فی القربی و من یقتوف حسنتہ نزدلہ فیھا حسنا ان اﷲ غفور شکور۔

پ ۲۵ س الشوریٰ
ترجمہ : ۔ یہ تو وہی ہے جس کی اﷲ اپنے بندوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے خوشخبری دیتا ہے تم یہ کہہ دو کہ میں تو اس تبلیغ رسالت پر تم سے کوئی اجرت نہیں لیتا مگر میرے اہلبیت کی مودۃ کے جو نیکی کرے گا اس کی خاطر سے ہم اس کی نیکی کو بہت بڑھا دیں گے بے شک اﷲ بڑا بخشنے والا اور بڑا قدردان ہے ۔
خدا فرماتا ہے کہ میرا حبیب ؐ آپ یہ کہہ دیں اس تبلیغ دین کے عوض اس قرآن کا اس اسلام کا اس شر یعت کا میں کوئی اجر نہیں مانگتا صرف قربیٰ کی مودت۔
ابن عباس ؓ سے مروی ہے جب یہ آیات نازل ہوئی تو ہم اصحاب رسول ؐ نے عرض کی یا رسول اﷲ ؐ وہ آپ کے قریبی رشتہ دار کون ہیں ؟ جن کی محبت اﷲ نے ہم پر فرض کی ہے تو حضور اکرم ؐ نے جواب دیا کہ وہ علی ؑ فاطمہ ؑ حسن ؑ اور حسین ؑ ہیں ۔ (مودۃ القربی ص ۹۴، صواعق محرقہ ص ۲۲۵)
اﷲ تبارک و تعالیٰ آیت کے آخر میں اس مودۃ کا ثواب بیان فرما تے ہیں کہ ومن یقترف حسنتہ نزدلہ فیھا حسنا جو آل محمد ؐ کی محبت کریں گے میں ان کی نیکیاں اس حسنہ کی برکت میں زیادہ کردوں گا ان اﷲ غفور شکور گناہ معاف ہونگے مومن جانے لگے عرش سے آواز آئی مومن تیرا شکریہ میری طرف سے شکریہ ملائکہ کی طرف سے شکریہ یہ تونے ان سے محبت کی جب قیامت کا دن آئے تو ساری دنیا اپنی اپنی نیکیاں لے کر جائے گی تو جبرائیل ؑ کہے گا یا اﷲ ! یہ لوگ مجبور کرتے ہیں کہ ہماری نمازوں کا وزن کرو فرمایا بیشک وزن کرو لیکن ۔
و قفوھم ا نھم مسئولون
ان کو کھڑے کردو نمازوں ان کے سرپر رکھو ان سے سوال کرو اگر جواب آجائے توتول کر لوورنہ واپس کردو کون سا سوال عرش سے آواز آئی ۔
انھم مسئولون عن ولایت علی بن ابی طالب ۔صواعق محرقہ و مودۃ القربی
کیونکہ حبیب کبریا نے آخری یہ بطور امانت چھوڑا ہے کہ
قال رسول اﷲ ؐ انی تارک فیکم الثقلین کتاب اﷲ و عترتی ما ان تمستکم بھما لن تضلو بعدی۔ مشکوٰۃ باب مناقب اہلبیت ؑ
آل محمد ؐ کے ماننے کے تین رکن ہیں پہلا اہلبیت ؑ کی امامت پر ایمان لانا ۔ دو سرا اہلبیت ؑ کی محبت کو واجب سمجھنا اور تیسرا اہلبیت ؑ کے دشمنوں سے بیزار ہو جانا۔
بنا برایں امامیہ صوفیہ کے متوسلین پنجگانہ دعائے متشفع میں پڑھتے ہیں کہ و بعلی زین العابدین و عترتہ امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کی عزت کا واسطہ دے کراﷲ تعالیٰ سے مناجات کرتے ہیں ۔
ولادت امام زین العابدین علیہ السلام
سید سجّاد علی بن الحسین علیہ السلام کی تاریخ ولادت میں بہت اختلاف ہے ۔
۱۵ ماہ جمادی الاول یا جمای الثانی اور پنجم ماہ شعبان ۳۶ ھ یا ۳۷ ھ بروز پنجشنبہ یا جمعہ متولد ہوا مدینہ منورہ نور امامت سے جگ مگا اٹھا امام حسین علیہ السلام کے گھرمیں شاہ زمان شہنشاہ نوشیران کی پوتی کی آغوش میں معرفت اور عبادت کا ستارہ سید العارفین سیدا لساجدین بن کرچمکا ۔ امیرالمومنین ؑخوش کہ علی ؑ آیا امام حسن ؑ خوش ہوا کہ حسین ؑ کا وصی آیا ۔
خانہ سبط نبیؐ حور ہے سبحان اﷲ
شہر بانو کا الم دور ہے سبحان اﷲ
خانہ فاطمہ ؑ آباد نظر آتا ہے
بچہ سجدہ میں ہے سجاد نظر آتا ہے
حسین ؑ کے گھر میں ہمنام امیرالمومنین ؑ آیا ۔ اسلام پکارا رسول ؐ کا چوتھا جانشین آیا ۔ فرش نے کہا عرش کا مکین آیا ٗ قرآن نے کہا امام المبین آیا ٗ عبادت بولی زین العابدین آیا ۔ کربلا چلائی سید الصابرین ؑ آیا ۔ سید ساجد بن علی ؑ نے دو سال دامن علی ؑ امام اول کے سایہ میں پرورش پائی ۔ عم محترم کے دس سال امامت کے انداز دیکھے دس سال پدر بزرگوار کے خاموش اطوار دیکھے حسین ؑ نے نور رسالت کو چاہا کہ پھر ایک جگہ جمع ہو جائے اور نور حسن ؑ و حسین ؑ ایک مرکز پر آجائے حضرت علی ؑ وزہرا ؑ کے اس پوتے کی شادی علی ؑ و فاطمہ ؑکی پوتی امام زادی سے کردی ۔ علی ؑ اور فاطمہ ؑ پھر ایک جگہ جمع ہوگئے امام زین العابدین علیہ السلام نے بیس حج پیادہ ادا کئے حجرا سود سے امامت کی گواہی لی ۔ عبادت نے محویت عبادت کی داد دی ۔ ایک روز امام ؑ مصلائے عبادت پر محو عبادت تھے کہ بچہ کی ماں چلائی یا بن رسول اﷲ ؐ باقر ؑکنویں میں گرگیا ہے اما م اسی طرح مصروف نماز رہے جناب فاطمہ ؑ کنویں سے مصلی کی طر ف مثل صفا و مرو ا کے در میان بچہ کی ہلاکت کی خوف سے بار بار دو ڑلگارہی تھیں امام ؑ اسی طرح مصروف نماز تھے فراغ ہو کردست دعا بلند کئے اور دست امامت کنویں کی طرف بڑھا یا بچہ کو کنویں سے نکال کر آغوش مادر میں دے دیا پھر مصلائے عبادت پر تشریف لے آئے۔
شہادت امام زین العابدین علیہ السلام
مورخ لکھتاہے کہ ایمان کا اگر دفینہ دیکھنا ہو ٗ نجات کا اگر سفینہ دیکھنا ہو ٗ اسلام کا صحیح آئینہ دیکھنا ہو تو اعجاز امامت کی زندہ تصویریں امام زین العابدین ؑ کی زندگی پر نظر ڈالنے سے معلوم ہو تا ہے کہ رضا بقضائہ و تسلیما لامرہ کہنے والے حسین علیہ السلام نے اس فرزند کو بچپن ہی سے صبر کی لوریاں دے کر کسی آنے والے وقت کے لئے پرواں چڑھا یاتھا وہ وقت آیا اور وہ مصائب ساتھ لایا جس کے اٹھا نے سے زمین و آسمان اور پہاڑوں نے انکار کردیا تھا کربلا آئی سیلاب بلا ساتھ لائی بیمار امام ؑ کبھی غش سے آنکھیں کھولتا توسنتا یا ور و انصارنہ رہے چچا عباس علمبردار ؑ نہ رہے ٗ اکبر ؑ ہمشکل احمد مختار ؐ نہ رہے پھر سنا اصغر شیر خوار ؑ نہ رہے حسین ؑ آخری رخصت کو خیمہ میں آئے بیٹے کو دیکھا غش میں پڑا ہے امام حسین علیہ السلام نے آنسوؤں کے چھینٹے دیئے عابد بیمار ؑ نے آنکھیں کھولیں باپ اپنے سراپنے سرخ عمامہ اور سرخ لباس میں نظر آئے حیران ہو کراٹھ بیٹھے ۔ عرض کی بابا لباس خوں میں رنگیں کیوں ہے ؟ فرمایا بیٹا تمہارا باپ ؑ صبح سے خون کے دریا میں شناور ہے ساحل مراد اب نزدیک تر ہے سنو اور غور سے سنو تبرکات اور لوازمات امامت لے لیں اسرار امامت تلقین کرکے فرمایا بعد عصر اب تم امام عصر ہویہ سن کر بیمار بیٹا کا نپتے ہوئے ٹانگوں پر زور دے کر کھڑا ہوگیا ۔ عرض کی بابا عصر سے پہلے میں آپ پر قربان ہونگایہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بیٹے کی زندگی میں باپ میدان میں جائے حسین ؑ روئے اور فرمایا میرے بیمار مجاہد تمہیں ایک سخت جہاد در پیش ہے ۔ جہاد بالسنان تو ہم نے کیا تمہیں جہاد بالصبر کرنا ہے ۔ خدا حافظ بیٹا ہمارے دوستوں کو سلام کہنا اور کہنا کہ جب ٹھنڈا پانی پیو تو حسین علیہ السلام کے بچوں کی پیاس بھی یاد کرلینا۔ نمازی کا سر سجدہ میں جدا ہوا ٗ تو اسیروں کا قافلہ مقتل سے نکالا گیا قیدی امام نے باپ کی لاش خاک و خون میں آلودہ دیکھی قریب تھا روح پرواز کرجائے حکیمہ نفسانیات حضرت زینب ؑ نے بھیتجے کی حالت غیر دیکھی تو توجہ کو اپنی طرف منعطف کرنے کے لئے خود کو اونٹ سے گرادیا اور فرمایا سید الصابرین ؑ یہ کیا حال ہے ابھی صبر کی کٹھن منزلوں سے گزرنا ہے ۔ الحاصل آل رسول ؐ و مشق میں لے آیا ۔ معاویہ کے بیٹے نے حکم دیا کہ دربار عام میں لائے فاطمہ ؑ کی بیٹی فضہ ؓ کو بولا فضہ ؓ شمر لعین سے کہہ دو اگر دربار ہی میں لے جانا ہے تو ایک ایک چادر دے دے شمر لعین نے چادر دینے سے انکار کیا ۔ شیر خدا ؑ کی بیٹی نے کہا زینب ؑ کھلے سردربار عام میں نہ جائے گی شمر لعین نے سنا سید سجاد علیہ السلام کی طرف بڑھا تازیانہ ہاتھ میں تھا ۔ شقی اذلی کی حرکت دیکھ کر امام علیہ السلام پھوپھی کی خدمت میں آئے پھو پھی ؑ کی طرف پشت کر کے کھڑے ہوگئے ۔ پشت کی زخم دکھا کر فرمایا کہ پھو پھی اماں ؑ اب سجاد ؑ میں تازیانے کھانے کی طاقت نہیں رہی جناب زینب ؑ نے بھیتجے کی پشت پر نظر ڈالی کہ نظر سر امام ؑ تک پہنچی دیکھا امام حسین علیہ السلام کے رخساروں پر آنسوؤں کے تارے چمک رہے ہیں بہت روئیں اور کہابھائی حسین ؑ نہ روؤ زینب ؑ دربار میں جار ہی ہے ۔ تلوار کھولے فوجیوں کی قطار تھی اور سید الصابرین ؑ بہنوں ٗ پھو پھیوں ٗ ماؤں کو لئے سرجھکا ئے آگے آگے جارہے تھے دربار میں کیا دیکھا سر حسین ؑ طثت میں رکھا دیکھا اﷲ رے امتحان میں صبر امام ؑ
کیوں اے فلاک یہ صبر کا عابدؑکے امتحان
گردن میںطوق پائے مقدس میں بیڑیاں
پیروں میں چھالے پشت پہ تھے دردوںکے نشاں
سلطان دو جہاں تھا اﷲ رے ساربان
ایوب کربلا ؑ نے وہ مصائب سہے کہ تمام زندگی آنسو ہی نہ تھمے ایک روز ایک شخص نے کہا مولا کب تک روئے گا ؟ فرمایا یعقوب ؑ خدا کے نبی ؑ تھے ۔ ایک بیٹا بارہ بیٹوں میں سے گم ہو گیا تھا حالا نکہ جانتے تھے بقید حیات ہے مگر صرف اس کی جدائی میں اتنا روئے کہ کمر جھک گئی بینائی جاتی رہی ہائے میں نے اٹھارہ عزیزوں باپ ٗ بھائی اور اقرباء کا ایک دن میں تن سے سرجدا دیکھا ہے ۔ پھر مجھ سے پوچھتے ہو کہ کب تک روئے گااگر ساری زندگی روؤں تو کم ہے آخر روتے ہی روتے ستاون سال کی عمر میں پچّیس ماہ محرم الحرام ۹۴ ھ ۹۵ھ کو ولید پلید بن عبدالملک خلیفہ بن امیہ کے زہر سے شہید ہوئے اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جب ہمارے والد ماجد کو آخری مرض لا حق ہو ا توا پنے تمام بیٹوں کو جمع کئے محمد ؑ یعنی مجھے و عبداﷲ و حسن ؑ و غیرہ سب کو وصیت فرمایا اور کہا محمد باقر ؑ میرا وصی و جانشیں ہے امت محمد ؐ کا یہ امام مطلق ہے اس کے بعد ہم نے اپنے پدر بزرگوار ؑ کو غسل و کفن دیا نماز جنازہ پڑھی اور جنت البقیع میں لے جاکے پہلوئے امام حسن علیہ السلام میں دفن کیا ۔