حضرت امام محمد تقی علیہ سلام


بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال اﷲ تعالیٰ فی کتابہ القدیم و الذین یقولون ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریٰتنا قرۃ اعین و-اجعلنا للمتقین اماما
۔سورۂ فرقان پارہ ۱۹
ترجمہ : ۔ خداوند عالم اپنی حکمت سے بھری ہوئی کتاب میں فرماتے ہیں اور وہ یہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری ازواج کی طرف سے اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عنایت کر اور ہم کو پرہیز گاروں کا پیشوا بنادے ۔
المناقب میں سعید ابن جبیر سے روایت ہے کہ و اﷲ یہ پوری آیت حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی شان میں خاص ہے وہ حضرت ؑ اکثریہ دعا مانگا کرتے تھے من ازواجنا سے مراد حضرت فاطمہ زہرا ؑ اور و من ذریتنا سے حضرت امام حسن ؑ اور حضرت امام حسین ؑ قرۃ العین اس سے یہ مطلب ہے کہ حضرت امام علی علیہ السلام فرمایا کرتے تھے میں نے ہمیشہ ایسی اولاد کی خواہش کی جو خدا کے مطیع و ترساں ہوں تا کہ حالت طاعت و عبادت میں جب میری نظر ان پر پڑے تو میری آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں۔
و اجعلنا للمتقین اماما۔
اس سے مراد یہ ہی کہ جو کہ متقی ہم سے پہلے گزرگئے ہیں ان کی تو ہم اقتدا کریں اور جو متقی ہمارے بعد ہونے والے ہیں وہ ہماری اقتداء کریں ۔ تفسیر ابن کثیر و قمی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے بہی یہی روایت ہے اس طرح قرآن بہی متقین کا ہادی و رہبر ہے ۔ ذالک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقین ۔ یہ کتاب ایسی ہے جس میں کسی قسم کا شک نہیں ۔ ان پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے جو غیب پر ایمان لائے الخ حضرت امام علی علیہ السلام کا جو متقی ہم سے پہلے گزر گئے ہیں حبیب کبریا محمد مصطفی ؐ مراد ہیں ۔ جیسا کہ جنگ احد میں رسول ؐ غائب ہوئے تو حضرت علی ؑ نے یوں سلام کیا ۔
الصلوۃ والسلام علیک یا امام المتقین دعوات صوفیہ امامیہ
اے پرہیزگاروں کے امام ! آپ پر درود وسلام ہو اور سید علی ہمدانی قدس اﷲ سرہ جیسا اولیاء اﷲ المرشیدین نے اپنے ورد وظائف میں اس بات پر راضی و خوشی کا اظہار کئے ہیں کہ
رضینا باﷲ تعالیٰ ربا و بالاسلام دینا و بحمد صلعم نبینا و رسولا بعلی علیہ السلام اماما ۔ دعوات صوفیہ امامیہ
یعنی ہم بالکل رضامند ہیں اﷲ رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر محمد ؐ کے پیغمبر ہونے اور رسول ہونے پر علی ؑ کے امام ہونے پر ۔ اور دعوات و غیرہ کتب امامیہ صوفیہ المعروف نور بخشیہ میں بزرگان دین کا حکم ہیں کہ جب میت اپنی قبر میں منہ قبلہ کی طرف پیشانی دیوار سے ملا کر رکھا جاچکا تو پھریوں تلقین پڑھی جائے ۔
سبحان من تعزز الی آخر اﷲ ربی و الاسلام دینی و القرآن کتابی و کعبۃ قبلتی و محمد ؐ نبی و علی علیہ السلام امامی – تین بار – دعوات صوفیہ امامیہ
امامی کا تکرار لفظی برائے تاکید ہے اور قواعد کے مطابق برائے دفع تجاوز دفع شمول و دفع توہم ہے ۔ ملاحظہ فرمایئے ( شرح مختصر المعانی) اسی طرح بلافصل بار ہویں امام محمد مہدی علیہم السلام اجمعین ہم سادتی و قادتی و آئمتی و امامی بہم اتوالی و من اعدائھم اتبراء ۔ الغرض حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم میرے نبی ؐ ہیں ٗ حضرت علی ؑ میرے امام ہیں ٗ ان کے بعد ان کی اولاد کے سردار حضرت امام حسن ؑ میرے امام ہیں ٗ اس طرح یکے بعد دیگرے پھر صاحب الزمان حضرت مہدی ؑ میرے امام ہیں اور دیگر تمام ائمہ کرام علیہم السلام پر اﷲ کی رحمتیں اور سلامتی نازل ہو وہی ہستیاں میرے روحانی سرداران ہیں ۔ روحانی قائدین ہیں دین حق کے آئمہ کرام ہیں یہ سب میرے امام ہیں ۔ میں ان کے ساتھ حقیقی دوستانہ محبت رکھتار رکھتی ہوں اور ان کے دشمنوں سے بیزار رہا کرتار کرتی ہوں اور سید محمد نور بخش قدس اﷲ سرہ نے حدیث رسول ؐ کے مطابق علی علیہ السلام کے القاب میں فرمایا تھا کہ و ما قال امیر المومنین و امام المتقین اسد اﷲ الغالب علی بن ابی طالب علیہ اللام ۔ اصول اعتقادیہ میں امامت کے متعلق جو بحث کی گئی ہے انہی بارہ میں سے نواں امام ؑ کا اسم شریف محمد تقی علیہ السلام ہے ہم نور بخشی دعائے تشفع میں پڑھتے ہیں
و بمحمد ن تقی و نقابتہ دعوات صوفیہ امامیہ
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور ان کی سرداری کا واسطہ۔
ولادت حضرت امام محمد تقی علیہ السلام
تاریخ ولادت پر حضرت امام محمد تقی علیہ السلام بین العلماء و مشائخ اختلاف ہے لیکن بروایت معتبر آپ ؑ جمعہ کے دن دس ماہ رجب ۱۹۵ ھ مدینہ میں متولد ہوئے اور بسند معتب حضرت حکیمہ خاتون دختر حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتی ہیں کہ میرے بھائی امام علی رضا علیہ السلام نے مجھے فرمایا کہ اے حکیمہ آج رات کو فرزند مبارک ریحانہ خاتون کے بطن سے تولد ہوگا۔ آپ ان کے پاس رہنے کی تکلیف فرمائیں میں خدمت قابلہ ادا کر رہی تھی اتنے میں چراغ گل ہوگیا اور اندھیرا ہوگیا تھا ناگاہ میں نے دیکھا کہ وہ خورشید امامت افق رحم مطہرہ سے طالع ہوا اور اس سے ایک نور ساطع ہوا کہ تمام حجرہ منور ہوا اور سراقدس سجدے سے اٹھا کر بزبان فصیح فرمایا کہ
اشھد ان لا الہ الا اﷲ و اشہد ان محمد رسول اﷲ۔
سلسلہ امامت کا در شہسوار خانوادہ عصمت کا گوہرایقان حضرت محمد رسول خدا ؐ نبی کانواں وصی علی علیہ السلام کے گھر میں تقی علیہ السلام آیا تو تقویٰ سلام کو آیا عصمت نے کہا امام آیا تیسرے علی ؑ نے تیسرے محمد ؐ کو آغوش میں لیا امام نے دھان امام میں زبان کو دیا اور پہلے دن امامت کا سب درس ختم کرایا آئمہ طاہرین ؑ کی عصمت کی منحرف دنیا دیکھئے اور چھ سات سال کے بچے کے علم لدنی سے سبق لے ۔ امام محمد تقی علیہ السلام ابھی چھ سات سال کے ہیں مامون حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا اعجاز دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ عظمت امام دل میں گھر کرتی چلی گئی عقیدت کے دریا میں طوفان آیا اور یہ طے کرلیا کہ مجھے اپنی لڑکی کا عقد فرزند امام علی رضا علیہ السلام سے ضرور کردینا چاہئے ۔ خاندان عباسیہ کے امراء واراکین سلطنت کو جمع کیا اور کہا میں نے یہ طے کیا ہے کہ ام الفضل کا عقد فرزند علی رضا علیہ السلام سے کروں کیا رائے ہے ؟ یہ سن کرلوگ حیران رہ گئے اور کہا کہ سرکار کو اختیار ہے مگر ان کے باپ کو داماد اور ولی عہد بنا کر سلطنت کو کیا فائدہ پہنچا جو اس کمسن بچہ سے جو تعلیم یافتہ بھی نہیں مامون نے سب کی باتیں سنیں اور کہا دیکھو ہم سب اس فرزند کی نسبی عظمت سے واقف ہو یہ فرزند اس خاندان سے تعلق رکھتا ہے جن کو خدا نے علم و حکمت سے آراستہ کیا ہے یہ اور بچوں کی طرح نہیں جس کوناقص سے کامل بنایا جائے ۔ الحاصل مامون نے امام علیہ السلام سے در خواست کی فرزند رسول ؐ خطبہ اور صیغہ نکاح پڑھیئے امام ؑ نے لحن داؤدی میں امامت کی شان سے خطبہ پڑھا رشتہ قائم ہوا ۔
شہادت امام محمد تقی علیہ السلام
۲۱۸ ھ میں مامون رشید کا انتقال ہوا اور تخت حکومت پر معتصم کا قبضہ ہوگیا ۔
دشمن اہلبیت ؑ کے خاندانی وارث نے قتل امام ؑ کی تیاری شروع کی حاکم مدینہ کو حکم پہنچا کر امام محمد تقی علیہ السلام کو مع ام الفضل فوراً بغداد بھیج دو ۔ امام علیہ السلام کو حاکم مدینہ کا پیغام پہنچا سفر کی تیاریاں ہوئیں آثار عداوت اور علم امامت نے بتلایا کہ یہ آخری سفر ہے سب سے سے پہلے امام محمد تقی علیہ السلام قبررسول اکرم ؐ پر اس طرح پہنچے سر برہنہ گریبان چاک چھ برس کا فرزند ساتھ روضہ رسول ؐ کو دیکھ کر روتے ہوئے دو ڑ کر لپٹ گئے ۔ نانا ظالم مجھ سے مدینہ چھڑوا رہے ہیں آپ ؐ کا فرزند اس مقدس روضہ کی برکتوں سے ہمیشہ محروم ہو رہا ہے بغداد جس غرض سے بلا یا جارہا ہے وہ آپ ؐ کو بھی خوب معلوم ہے میں راضی برضائے الٰہی ہوں مگر علی نقی علیہ السلام کی کمسنی کا خیال ہے اگر یہ نہ رہا تو سلسلہ امامت نہ رہے گا فرزند کو قبر مطہر سے چمٹا کر فرمایا اس کو آپ کی آغوش حفاظت میں چھوڑ رہا ہوں شاید روضہ رسول ؐ سے جواب آیا ہو کہ بیٹا غم نہ کھا محمد ؐ کے بعد قدرت نے علی علیہ السلام کی حفاظت کی تھی اب یہی قدرت محمد ؑ کے بعد علی ؑ کی حفاظت کرے گی امام فرزند کو لئے جدہ مغطمہ حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی روضہ پر حاضر ہوئے اور رخسارے روضہ اقدس یہ رکھ کر تادیر روتے رہے اور کہا کہ جدہ محترمہ یہ چھوٹا مجاور بعد خدا آپ ؑ کے سپرد ہے کیا عجب کہ بنت رسول ؐ کی روضہ سے آواز آئی ہو ٗ بیٹا ! اگر سفر میں میرے لعل امام حسین علیہ السلام کے روضہ پر جانا تو میرے حسین ؑ کو سلام پہنچانا ۔
نقی ؑ ہے پاس میرے اس کہ ہے خدا حافظ
سدھا رو جاؤ شہادت کا مرتبہ پانا
امام واپس گھر تشریف لائے تبرکات امامت چھ سال کے امام کے سپرد کئے تادیر سینہ سے لگائے رہے اسرار امامت کی تعلیم ہوتی رہی گھر والوں نے امام ؑ کو رخصت کیا امام ؑ نے فرمایا میراسب کو آخری سلام ہو اور خدا حافظ کہہ کر روانہ ہوگئے بغداد میں چند عرصہ قیام کیا تھا کہ معتصم اپنے ارادہ میں کامیاب ہوا ۔ بموافق تاریخ طبری ۶ ماہ ذی الحجہ ۲۹ ماہ ذالقعدہ بروز سہ شنبہ یا پنجشنبہ ۲۲۰ ھ پچّیس سال کی عمر میں مدت امامت ۱۸ سال معتصم خلیفہ عباسی کے زہر سے بدرجہ شہادت فائز ہوئے اور کتاب بصائر الدرجات میں لکھا ہے کہ حضرت اام علی نقی علیہ السلام مدینہ سے بطی الارض بغداد تشریف لائے اور مشغول متصدی غسل و کفن اور نماز و دفن پدر بزرگوار ہوئے۔ کاظمین میں پہلو جد بزرگوار امام موسیٰ کاظم علیہ السلام میںدفن ہوئے ۔ امام علیہ السلام کی چار لڑکے اور چارلڑکیاں تھیں۔