حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ رح


حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ
پیر ولی تراش ابو الجناب احمد المعروف نجم الدین کبریٰ ٥٤٠ھ میں خیوق یا خیوہ نامی بستی میں پیدا ہوئے۔
آپؒ نے بہت سے علماء و فضلاء سے علوم و فنون سیکھے تھے اور تفسیر، حدیث، فقہ، منطق ادب کا وسیع مطالعہ کیا تھا۔ تمام علوم و فنون میں تبحر حاصل کرنے کے بعد راہ طریقت میں قدم رکھا اس لئے روحانی قدر و منزلت کا اندازہ آپ کے القابات سے ہو جاتا ہے۔
امیر کبیر سید علی ہمدانی قد سرہ لکھتے ہیں:
آپ اپنے زمانے کے اولیاء کاملین میں سب سے کامل اور ہم عصر علماء میںسب سے بڑے عالم تھے۔
آپ نے بہت اچھی تربیت پائی تھی علوم و فنون کے سمندر اور سلوک و طریقت کے مخزن تھے۔ آپ کے بے شمار اساتذہ تھے۔ میر سید محمد نوربخش لکھتے ہیں کہ
آپ سے مرشدین طریقت کو فیوض و برکات ملتی رہی ہیں۔ پس آپ سے بہت سے اولیاء کے سلسلے اور اہل ارشاد کے حلقے نکلے ہیں۔
آپ نے بہت سے علماء و فضلاء سے علوم و فنون سیکھے تھے اور تفسیر، حدیث، فقہ، منطق ادب کا وسیع مطالعہ کیا تھا تمام علوم و فنون میں تبحر حاصل کرنے کے بعد راہ طریقت میں قدم رکھا اس لئے روحانی قدر و منزلت کا اندازہ آپ کے القابات سے ہو جاتا ہے۔
آپ کے استادوں میں شیخ ابراہیم ہمدانی، ابو منصور عطاری، بابا فرج تبریزی، شیخ اسماعیل قصری ، شیخ روز بہان مصری، احمد الموصلی، قاضی الامام ابن و مسقی اور شیخ عمار یاسر بدیسی شامل ہیں۔
آپ خود فرماتے ہیں: میں نے علم طریقت روز بہان سے، عشق قاضی امام سے، علم خلوت و عزلت عمار یاسر سے، خرقہ اسماعیل قصری سے اور نظر بابا فرج تبریزی سے حاصل کی۔ آپ بہت بڑے عالم، ناقابل شکست مناظر، عارف اور مرشد کامل و مکمل تھے۔ آپ نے بھر پور زندگی گزاری اور ٦١٨ھ میں چنگیزی افواج کے ہاتھوں شہید ہوئے اور آپ کے اپنی قائم کردہ خانقاہ میں دفن ہوئے۔ آپ کا مزار مبارک آج بھی جرجانیہ (ازبکستان) میں مرجع خلائق ہے۔
آپ کا شمار ان عارفوں میں ہوتے ہیں جنہوں نے عملی میدان میں کامیابی کے ساتھ تحقیق اور علمی میدان میں بھی کارنامے انجام دیے۔ آپ کے مندرجہ ذیل علمی آثار موجود ہیں:
١۔ فوائح الجلال و فواتح الجلال ٢۔السائر الحائر ٣۔اقرب الطریق ٤۔ الاصول العشرہ ٥۔ رسالہ الخائف الھائم عن لومةالائم ٦۔ منہاج السالکین ٧۔ منازل السائرین۔